موسی رضا صاحب ہندوستان کے ایک معروف بیوروکریٹ تھے جن کو حکومت ہند نے کئی اہم ذمہ داریاں دی تھیں جس میں 1968 میں سورت کے بدترین سیلاب کے بعد بحالی کا کام اور 1969 میں گجرات میں بدترین قحط سالی کے بعد ریلیف کا کام شامل ہے آپ نے بطور بیوروکریٹ بہت بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اپنی یاداشتوں کو Of Nawabs & Nightingales میں قلمبند کیا جس کا پاکستان میں اردو ترجمہ معروف ادیب کالم نگار اور مترجم شاہ محی الحق فاروقی صاحب نے کیا جو خود بھی پاکستانی بیوروکریٹ تھے ۔ موسی رضا صاحب کی یاداشتیں یوں تو کئی ابواب پر مشتمل ہے ان میں سے ایک باب فراغتین کیسی کیسی پیش خدمت ہے موسی رضا صاحب کا کہنا ہے کہ گجراتی زبان میں بیت الخلا کے لیئے کوئی لفظ موجود ہیں نہیں اس لیئے کہ وہاں بیت الخلا کو سرے سے کوئی تصور نہیں یہ کام وہاں کھلے کھیتوں اور میدانوں میں کسی جھاڑی کی آڑ میں کر لیا جاتا ہے ایک دور میں چونکہ خس کی خوشبو دار جھاڑی سے بنی چلمن کو ٹٹی کہا جاتا تھا جہاں کہیں خس کی ٹٹیوں سے پردہ یا اڑ کھڑی کی جاتی تھی اسے کراہیت سے بچنے کے لیئے ٹٹی خانہ کہا جانے لگا یوں اردو میں ٹٹی اور ٹٹی خانے کا م مفہوم ہی بدل گیا اور ٹٹی خانہ جائے خوشبو سے جائے غلاظت میں بدل گیا موسی رضا صاحب نے نہ صرف اپنے بلکہ گورنر گجرات کے دلچسپ واقعات بیان کیئے ہیں کہ کس طرح سرکاری دورے کے دوران پورے پروٹوکول کے ساتھ اور اسٹاف کے جلوس میں انہیں کھیتوں میں فارغ کرنے کا اھتمام کیا جاتا تھا ۔ ایک بہت ہی دلچسپ مضمون آخر تک سنیئے