Look for any podcast host, guest or anyone
Showing episodes and shows of

Shariq Ali

Shows

Escape To The Full Audiobook Everyone Is Talking About — So Soul-Stirring!Escape To The Full Audiobook Everyone Is Talking About — So Soul-Stirring!The Quran in Rhyme by Shariq Ali KhanPlease visithttps://thebookvoice.com/podcasts/2/audible/39419to listen full audiobooks. Title: The Quran in Rhyme Series: The Quran in Rhyme Author: Shariq Ali Khan Narrator: Shariq Ali Khan Format: mp3 Length: 5 hrs and 13 mins Release date: 04-09-25 Ratings: Not rated yet Genres: Poetry Publisher's Summary: All languages are Allah’s. He has revealed, created, and moulded them, shaped them throughout the ages. Originally, mankind was one tribe S2 V213, and from it, all people descend, and all tongues, dialects, and vernaculars. So, there is a common bond, a genetic unity reflected also in words and cultures. Ultimately, this bond al...2025-04-095h 13VALUEVERSITYVALUEVERSITYCOMRADE, SAGE, INSHAY SERIAL, EPISODE 13Khaliqdina hall is an important landmark in the history of Karachi.  British authorities conducted a court trial here in 1921 against Maulana Muhammad & Shoukat Ali for civil uprising of Khilafat movement کامریڈ، سیج، انشے سیریل، تیرہواں انشاء، شارق علی۔ ایم اے جناح روڈ کے تیز رفتار ٹریفک سے گزر کر کالج جاتے تو روز ہی نظر پڑتی۔ بیت بازی میں انعام ملا تو پہلی بار اندر سے دیکھا۔ اطالوی طرز کی بڑی سی عمارت۔ پیشانی پر درج تھا خالق دینا ہال۔ تعمیر 1906۔ پروفیسر گل کراچی کو یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ شہر کے لئے کھوجہ کمیونٹی کے ایک امیر شخص کا تحفہ تھا یہ۔ تینتیس ہزار روپے لا گت آئی تھی اس زمانے میں۔ شہرت کا عروج 1921 میں ملا جب محمد علی جوہر پر خلافت کانفرنس میں سول نا فرمانی اور ترکوں کی حمایت پر بغاوت کا مقدمہ چلا۔ سزا تو نہ ہو سکی بلکہ زورِ خطابت سے گونجنے والی عمارت پورے ہندوستان میں آزادی کے مطالبے کی علامت بن گئی۔ کون محمّد علی جوہر؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ پانچ سالہ یتیم جن کی ہندوستان آزادی کے لئے قا ئد انہ  تربیت ان کی والدہ بی اماں نے کی۔ انگریز کی نفسیات کو  سمجھنے، اس سے نبرد آزمائی کے لئے انہیں انگریزی تعلیم دلوائی۔ علی گڑھ  سے وطن کا پیار اور علم کا جوش ملا، آکسفو رڈ سے قانون اور تاریخ کی اسناد لیں اور مدلل مباحثوں اور سیاسی زکاوت کا ہنر بھی سیکھا۔ تحریر اور خطابت پر عبور ان کی پہچان بنا۔ دل و ذہن دونوں کو فتح کرنا جانتے تھے وہ. ایچ جی ویلز  نے لکھا تھا محمد علی کے پاس میکالے کا قلم ، برک کی زبان اور نیپولین کا دل ہے۔اور ان کا کارنامہ؟ رمز نے پوچھا۔ بولے۔ 1911 میں کلکتہ سے کا مریڈ اخبار نکالا۔ آزا دی کی تڑپ اور عوامی جذبات کی ترجمانی نے شہرت اور ہر دل عزیزی بخشی ۔ انگریز نے خوف زدہ ہو کر رام پور کی جائیداد ضبط کر لی۔ کا مریڈ بند ہوا اور قید کر دئیے گئے۔ رہا ہوئے تو پھر وہی آزاد روشی اور دوبارہ قید۔ اسیری زندگی کا معمول بن گئی ۔  ایک بار اسیری میں بیٹیاں بیمار پڑیں۔ انگریز نے معافی مانگنے کی شرط لگائی کہ ملنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ بی اماں نے خط لکھا کہ تم معافی مانگ لیتے تو ان بوڑھے ہاتھوں میں تمہارا گلہ گھوٹنے کی طاقت اب بھی موجود ہے۔ بیٹی کا انتقال ہوا تو تدفین میں شرکت کی اجازت نہ ملی تو بیٹی کی یاد میں نظم لکھی۔ پھر دہلی سے ہمدرد نکالا جس نے سلطنت عثمانیہ کے حالات سے عوام کو آگاہ رکھا۔ ترکی کا دورہ کیا اور ترک ساتھیوں اور فلسطین کی دل و جان سے حمایت کی۔ ان کے آخری ایام؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ بار بار کی قید خرابیِ صحت کا سبب بنی پھر بھی 1930 کی لندن گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور اپنی مارکتہ لاآ را تقریر میں کہا۔ یہاں آنے کا مقصد پروا نہ آزادی حاصل کرنا ہے۔ اگر یہ نہ ملا تو غلام ملک واپس جانا مجھے منظور نہیں۔ قول کا سچا لندن کے قیام ہی میں خالقِ حقیق سے جا ملا۔ مفتیِ اعظم فلسطین نے نماز پڑھا ئی۔  جسد خاکی مسجدِ اقصی کے پاس یرو شلم میں دفن ہے ۔ اب کیسا ہےخالقدینا ہال؟  سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ اب تو بس نمائشوں یا طلباء تقریب کے لئے عام سا ہال ہے وہ۔ لکڑی کے کام والی چھت کو دیمک چاٹ چکی۔ ایک طرف اجڑی ہوئی لائبریری ہے تو دوسری طرف کسی این جی او کا دفتر۔ کے ایم سی نے 2002 میں کچھ آرائش کی تھی۔ پھر وہی بے سر و سامانی . وہ در و دیوار جو کبھی بولیں اماں محمد علی کی ، جان بیٹا خلافت پہ  دے دو کے نعروں سے گونجے تھے۔ آج ویران اور بے حال ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔  Listen, read, reflect and enjoy!  www.valueversity.com2022-06-0305 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYYONAN KA TOHFA, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 85YONAN KA TOHFA یونان کا تحفہ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پچاسیواں انشا  Chitral, the district of Khyber-Pakhtunkhwa province of Pakistan, is the home for Kailash, a unique Indo-Aryan tribe who love colours, music and freedom. Greeks gave many gifts to humanity. Kailash and philosophy are remarkable یونان کا تحفہ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پچاسیواں انشا، شارق علی ڈرائیو میرگل کے گاؤں چل کر چائے پینے کی دعوت قبول کی تو اس نے جیپ پکّی سڑک سے کچے میں اتار لی. کچھ دیر اوپر نیچ ہچکولوں کے بعد چترال سے بیس میل دور لہلہاتے کھیتوں کے ساتھ ڈھلانوں پر بنے سادہ سے مکانات کے قریب اخروٹ کے درختوں کی چھاؤں میں بچھی چارپایوں پر قہوے سے تواضع ہوئی. انکل شمالی علاقوں کا دورہ یاد کر رہے تھے. بولے. وہیں میرگل کا دوست خوش نواز بھی ملا. سنہرے بال اور نیلی آنکھوں والا کیلاش. کیلاش کون؟ میں نے پوچھا. دادا جی بولے. سوا دو ہزار سال پہلے سکندراعظم کی فوجیں یہ علاقے فتح کرنے آئیں تو شالاکش سپاہ سالار تھا. اسے اور سپاہیوں کو یہ علاقے اس قدر پسند آئے کہ وہ سکندر کی اجازت سے مقامی عورتوں سے شادی کر کے یہیں آباد ہو گئے . کیلاش انہی کی نسل سے ہیں. یانی آپا بولیں. ڈی این اے کی امریکی تحقیق،  موسیقی، لباس اور زبان دانوں کی دریافت شدہ مماثلت بھی  اس بات کی تصدیق کرتی ہے. کیلاش لوگ صرف تین ہزار ہیں لیکن دو ہزار سالہ ورثے کے محافظ. انکل بولے. کیلاش بستی میں نہ فون ہوتا ہے نہ کار، نہ کوئی اور جدید سہولت. مکمل انحصار کھیتی باڑی پر حتیٰ کہ اپنا لباس بھی خود ہی بناتے ہیں. ہفتہ بھر لمبے چاموس تہوار میں رقص و موسیقی کی رسومات، جانور کی قربانی اور  دعوتیں. وہ حیرت انگیز حد تک آزاد خیال ہیں. خوشرنگ کپڑے پہنی عورتیں اپنے خاوند چننے کا اختیار رکھتی ہیں. شراب اور ماریہوانا کا استعمال معیوب نہیں، کیلاش کے علاوہ کوئی اور تحفہ یونان کا دنیا کے لئے؟ میں نے پوچھا. دادا جی بولے. سب سے عظیم تحفہ تو یونانی فلسفہ ہے ممدو. پھر خود ہی وضاحت کی  . فلسفی وہ شخص ہوتا ہے جو کائنات کی حقیقت کو عقل اور دلیلوں سے سمجھنا چاہے، مذہبی عقائد یا حکایتوں سے نہیں. شروع کیسے ہوا تھا فلسفہ؟ میں نے پوچھا. بولے. ابتدا سوالوں سے ہوئی تھی. پہلا سوال یہ تھا کہ کائنات کیسے بنی؟ بہت سے فلسفیوں نے غور کیا اور رائے دی تو کائنات کی وضاحتی تصویر سامنے آنے لگی. ٢٦٠٠ سال پہلے تھالیز نے کہا. سب کچھ پانی سے بنا ہے. اس کا شاگرد ایناکزیمنڈر بولا سب کچھ لا محدود سے بنا ہے. بعد کے آنیوالو ں نے رائے دی.  جو کچھ ہے وہ سب مٹی ، آگ، پانی اور ہوا کا کرشمہ ہے. بات  گہری ہوتی چلی گئی اور آج بھی سائنسی درسگاہوں میں ان کے شروع کیے ہوۓ مباحث جاری ہیں. یانی آپا بولیں. فیساغورس نے ٥٣٠ ق م میں کائنات کو در حقیقت ریاضی کا کھیل قرار دیا تھا. اس نے کہا کہ کائنات کی وضاحت اگر ممکن ہے تو صرف ریاضی کے ذریعے . پھر اس نے جیومیٹری اور فیساغورس تھیورم ایجاد کر کے ہم طالب علموں کی پریشانی میں اضافہ بھی کیا. انکل نے کہا. ڈیموکراتیس کی رائے میں کائنات اتنے چھوٹے ذروں سے مل کر بنی ہے جنھیں دیکھنا ممکن نہیں. یہ ایٹم سے بنی کائنات کا پہلا درست بیان تھا. ڈھائی ہزار سال بعد آج کے سائنسدانوں نے تجربات سے اس کی بات کو صحیح ثابت کیا ہے. یا نی آپا بولیں. سچ پوچھو تو ان سب فلسفیوں میں میرا ہیرو سقراط ہے. فلسفیانہ سوچ کی سمت تبدیل کر دینے والا انقلابی . اس نے کہا کہ اہم بات یہ نہیں کہ کائنات کیسے بنی بلکہ یہ کہ ہم انسان اپنی زندگی کن اخلاقی اصولوں کے تحت بسر کرتے ہیں..........جاری ہے  www.valueversity.com2022-05-0505 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSUFAID FAAM KA BOJH, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 84SUFAID FAAM KA BOJH سفید فام کا بوجھ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، تراسیواں انشا THE WHITE MAN’S BURDEN, GRANDPA & ME, URDU HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 84 Rudyard Kipling wrote the poem “The White Man’s Burden” about the belief of the Western world that industrialisation is the way to civilise the Third World. This story travels in postcolonial Uganda to see what happened سفید فام کا بوجھ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، تراسیواں انشا، شارق علی ہال کی کھلی کھڑکی سے رن وے پر کھڑے بوئنگ کے پرواز کی تیاری میں تیزی سے چلتے انجن مجھے پریشان کیے ہوۓ تھے. کھینچے ہوۓ بریک ایک لمحے کو ناکارہ ہوتے تو ہم سب اس دیؤ پیکر تیر کے ٹھیک نشانے پر تھے. عملے کی بے نیازی سے ظاہر تھا کہ یہ روز کا معمول ہے. قطار میں بیشتر کالے ، کچھ گورے، دو جاپانی اور مجھ سمیت تین ایشیائی تھے. ائیرپورٹ کی عمارت بہت سادہ بلکہ عارضی نوعیت کی تھی. حیرت ہوئی کہ یہ ہے اینٹیبے  ائیرپورٹ جس پر اسرئیلی کمانڈوز نے ١٩٧٦ میں کامیاب آپریشن کر کے یرغمال ہم وطنوں کی جان بچائی تھی. انکل پٹیل یوگنڈا کا ذکر کر رہے تھے. بولے. پاسپورٹ پر مہر لگی تو میزبان کی جیپ میں بیس میل دور درالحکومت کمپالا میں رات گزارنے ہوٹل پہنچے . راستے میں سر سبز لیکن  چھوٹی پہاڑیاں اور جھگیوں کی بستیاں ملیں . ننگ دھڑنگ بچے سرخی مائل مٹی کے میدان میں فٹ بال کھیل رہے تھے. زنانہ لباس قدامت پسند اور بوسیدہ ، سڑکوں پر زیادہ تر موٹر سائیکلیں کچھ کا ریں بھی. میزبان نے بتایا کہ چرچ میں عبادت کا اوسط دورانیہ پانچ گھنٹے ہے لیکن ملک بھر میں  شراب اور گوشت کا استعمال حد سے بڑھا ہوا. کیلے، اننناس اور ایواکیڈو حسب موسم سستے اور ذائقہ دار. غربت ایسی کہ دکھی کر دے. آدھی آبادی ایک ڈالر روز پہ گزارا کرتی ہے جبکہ گیس اور تیل کے وافر ذخائر ابھی استعمال بھی نہیں ہوۓ . کولونیلزم کے لگائے زخم اب تک تازہ ہیں. کولونیلزم کیا ہوتا ہے دادا جی ؟ میں نے پوچھا. بولے. یورپ کے لوگ ترقی یافتہ ہوۓ تو نئی دنیاؤں کی تلاش میں نکلے. ملکوں پر قابض ہو کر جب انہوں نے مقامی حقائق کو نظر انداز کیا اور مغربی سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظریات مسلط کیے تو یہ کولونیلزم کہلایا. یا نی آپا بولیں.رڈیارڈ کپلنگ نے کولونیلزم کو سفید فاموں پر بوجھ کہہ کر یہ تاثر دیا تھا کہ غلام ملکوں کی ثقافت اتنی کمزور تھی کہ معاشرے کو چلانا ممکن ہی نہیں تھا.  اور یہ بوجھ سفید فام ثقافت کو اٹھانا پڑا . اس غیر منصفانہ جواز کی بنیاد پر انڈیا، آسٹریلیا، نیو زیلینڈ، کینیڈا اور بیشتر افریقہ پر حکمرانی کی گئی. اس ظلم کی حمایت مذہبی ٹھیکےداروں نے بھی کی اور خوب عیسائیت پھیلائی . کمپالا کے بعد کہاں گئے آپ؟ میں نے اچانک پوچھا. بولے. صبح ہوئی تو اسی میل دور لیک وکٹوریہ کے شمالی کنارے پر واقع جنجا پہنچے. کہتے ہیں دریاے نیل کا ہزاروں میل لمبا سفر جنجا ہی سے شروع ہوتا ہے. ہمارا قیام جنجا نائل ریسورٹ نامی ہوٹل میں تھا. مرکزی عمارت میں سوئمنگ پول اور کئی ریستوران. ساتھ کی کشادہ پہاڑی پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنے آرام دہ کاٹیج جس کے لان سے نظر آتا نیچے زور و شور سے بہتا دریاۓ نیل. کمرے کی کھڑکی کھلی ہو تو بہتے دریا کی مسلسل آواز سنائی دیتی . اگلے دن جنجا گئے. چھوٹا سا با رونق قصبہ ہے، دو ایک بڑی سڑکیں، بیشتر عمارتیں خستہ حال لیکن طرز تعمیر کولونیل. کولونیل دور سے نقصان کیا پہنچا غلام ملکوں کو؟ میں نے بات بدلی . یا نی آپا بولیں. اپنے انداز میں مستحکم اور ہم آہنگ معاشرے سیاسی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو گئے. جاگیردارانہ سوچ کولونیلزم ہی کی دین ہے.امیر اور غریب کو قدرتی اصول سمجھ کر قبول کر لینا ایسا ہی ہے جیسے انگریز حکمران اور مقامی لوگ غلام کا تصور مان لیا جائے . ذہنی آزادی تو تب ملے گی جب معاشرے میں ہر فرد مساوی قرار پائے یعنی وسائل کا برابر سے حقدار. اور ایسا بغیر انقلاب کے ممکن نہیں ممدو.......جاری ہے  www.valueversity.com2022-05-0405 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYYAAR E SHEHSAWAR, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 83YAAR E SHEHSAWAR یار شہسوار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تراسیواں انشا GALLANT CONFIDANT, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 83 Story of the gallant confidant, who in combination with iron weapons, made Hittites the super power of their times یار شہسوار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تراسیواں انشا، شارق علی جوکی کلب کے پھولوں سے آراستہ برآمدے میں قدیم کوفی ٹیبل سے اٹھ کر ہم سر سبز و شاداب باغ کی جانب بڑھے تو میں نے پوچھا. گھوڑوں سے خاندانی دلچسپی کب سے؟ پیٹر بولا. نیو مارکیٹ ریس کورس سے یہ تعلق دو سو سال پرانا ہے. پہلے کلب کے اندرونی حسن اور گھڑ سواری کے  نوادرات سے سجے کمرے صرف ممبرز کے استعمال میں تھے. اب خصوصی مہمان اور تقریبات کی بھی اجازت ہے. انکل انگلینڈ کی کاؤنٹی نارفوک کا ذکر کر رہے تھے. بولے. پیٹر نے بتایا کہ سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی یہ جاگیر گھوڑوں کی تربیت کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے. راولی مائل یورپ کا سب سے بڑا ریس کورس ہے اور سالانہ شب موسیقی کی وجہ سے جانا جاتا ہے. یانی آپا بولیں. انگلینڈ کی پانچویں بڑی کاؤنٹی ہے نارفوک . سو میل لمبا ساحل اور میلوں پھیلے گھنے جنگل اور سر سبز و شاداب روایتی انگلش دیہات . نورچ سب سے بڑا شہر ہے یہاں کا. پورے مغربی یورپ میں رقبے کے لحاظ  سے سب سے زیادہ میڈییول چرچ ہیں یہاں. کوئی چھ سو کے قریب. گھڑ سواری کا آغاز کب ہوا دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے. گھوڑوں کا ارتقائی سفر پینتیس لاکھ سال پہلے شمالی امریکا سے شروع ہوا تھا. پہلے تو یہ زیبرا کی طرح آزاد جنگلی جانور تھے. کوئی چھ ہزار ق م میں شمالی امریکا کی مقامی آبادی نے شکار سے ان کا مکمل صفایا کر دیا. صرف وہ بچے جو نرم گھانس، سیب اور گاجروں کے تعاقب میں وسطی اشیا کو ہجرت کر چکے تھے. موجودہ گھوڑے ان مہاجر گھوڑوں کی نسل ہیں. ایک لاکھ ق م  پہلے جب ابتدائی انسان وسطی اشیا پہنچے تو پہلے تو لباس، خیمے اور اوزار بنانے کے لئے گھوڑوں کا شکار ہوا. لیکن ٤٠٠٠ ق م میں پہلی بار کیسپین سمندر کے گرد بسے ہندی یورپین لوگوں نے سامان ادھر سے ادھر لے جانے کے لئے گھوڑے سدھانا شروع کئیے . ممکن ہے کچھ ان پر سوار بھی ہوۓ ہوں. پھر گھوڑا گاڑی کا استعمال عام ہونے لگا. ٢٥٠٠ کلو ق م میں مغربی اشیا کی سمیرین تہذیب میں گھوڑا گاڑیاں شہروں کے درمیان تجارت کے لئے  چلیں.پھر ہٹیٹ جنگجوؤں نے پہلی بار تیز رفتار گھوڑے جتے چیریوٹ کو جنگوں میں استعمال کیا. فولادی ہتھیار اور  چیریوٹ نے انھیں اس دور کی سپر پاور بنا دیا. پھر ١٩٠٠ ق م میں ٹرائے کی جنگ میں  چیریوٹ  استعمال ہوۓ اور ١٧٠٠ ق م  میں یہ استعمال مصر پہنچا. چین کی شینگ ڈائیسٹی نے ١٢٠٠ ق م میں چیریوٹ  استعمال کیے .  زین اور لگام تو صرف ٢٠٠ ق م  میں ایجاد اور استعمال ہوۓ . انکل نے کہا. انسانی تاریخ میں اہم جنگی ہتھیار رہے ہیں گھوڑے. چیریوٹ جنگجو پیدل سپاہ کو کچل سکتے تھے. وہ تیزی سے تھکے بغیر ادھر سے ادھر پہنچتے، پیغام رسانی، حملہ آور اور فرار ہو سکتے تھے. دادا جی بولے. پھر گھڑ سواری کا فن دنیا بھر میں پھیلا. شمالی امریکا ہزاروں سال گھوڑوں سے  محروم رہا. ہسپانوی پندرھویں صدی میں اپنے ساتھ گھوڑے لے کر پہنچے تو مقامی لوگ یہ مخلوق دیکھ کر حیران رہ گئے. ہسپانویوں نے ازٹیک تہذیب کو گھوڑوں ہی کی مدد سے شکست دی تھی ورنہ یہ جیت ممکن نہ تھی. پھر ریڈ انڈینز نے پکڑے ہوۓ ہسپانوی گھوڑے استعمال کرنے میں مہارت حاصل کی..........جاری ہے  www.valueversity.com2022-05-0305 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYZURD AUNABI, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 82ZURD AJNABI زرد اجنبی، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، بیاسیواں انشا  YELLOW STRANGER, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 82 This story is about the courage and sacrifice of 17000 chinese immigrants who built the railway across Canada between 1881 to 1884   زرد اجنبی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، بیاسیواں انشا، شارق علی تیز قدم لیکن مہذب اطمینان لئے مسافر اور سٹیشن سے زیادہ شاپنگ مال کا سا سماں. بیچ سے گزرتا راستہ اور دونوں جانب دکانیں اور ریستوران. کوفی کی تیز مہک. شیشوں سے دکھائی دیتے مختلف شکلوں اور رنگوں کے کیک، کوکیز اور دیگر لوازمات کے پیچھے خوش لباس، خوش اخلاق گاہک نمٹاتے دکاندار. ناشتہ کر چکے تو مونٹریال سے ٹورنٹو جانیوالی وایا ٹرین پکڑی. انکل پٹیل کینیڈا کا ذکر کر رھے تھے. بولے. پانچ گھنٹے کا سفر لیکن نشستیں بہت آرام دہ. ٹرین چلی تو ٹرالی کھینچتے ایک صاحب نے کھانے پینے کی چیزیں لئے چکر لگایا. کھڑکی سے منظر کہیں بور کہیں دلچسپ . زیادہ تر جنگل اور کھیت. کچھ رہائشی اور صنعتی علاقے بھی. ایک جھیل کے کنارے بنے خوبصورت مکانات. تیزی سے پیچھے بھاگتا برچ کے سفید درختوں کا جنگل. وہ تو جاڑے نہیں تھے ورنہ سب کچھ برف سے ڈھکا ہوتا. دادا جی بولے. کینیڈا ١٨٦٧ میں ملک بننا. پہلے کوبیک ، اونٹاریو، نیو برنسوک اور نووا سکوشیا الگ الگ صوبے تھے. ریلوے لائن نے دور دراز مثلاً برٹش کولمبیا کے دشوار پہاڑی علاقوں کو آپس میں ملا کر کینیڈا کو کنفیڈریشن بنایا. کوئلہ وافر دستیاب تھا یہاں اس لئے ریلوے تیزی سے پھیلی. کچھ گھنٹے سفر کے بعد انجن کو ایندھن اور عملے کو غذا کی ضرورت ہوتی تھی. اسی لئے ریلوے شیڈ اورہوٹل بنے ،لوگ آباد ہوۓ تو  ارد گرد کھیتی باڑی شروع کی.  گویا ریل شہروں تک نہیں بلکہ آبادیاں ریل کے ارد گرد قائم ہوئیں کینیڈا میں. ١٨٨١ سے ١٨٨٤ تک پیسفک کینیڈا کی تاریخ ساز ریلوے لائن بچھانے کا سہرا ١٧٠٠٠ چینی مزدوروں کے سر ھے . ان کی اجرت ایک ڈالر یومیہ تھی اور کھانے اور لباس کا انتظام بھی خود ان کے ذمّے . جبکہ سفید فام مزدور دو ڈالر روز اور سہولتیں مفت پاتے تھے. ہر مشکل کام چینیوں سے کروایا جاتا. صرف چاولوں اور سوکھی سالمن کھا کر زندہ اور جڑی بوٹیوں سے اپنا علاج کرلینے والوں نے عارضی خیموں کے باہر آگ جلا کر کینیڈا کی سردی کا مقابلہ اور مسلسل کام کیا. سرنگوں کے ڈائنامائٹ دھماکوں اور دشوار پلوں اور غذائی محرومی کی بیماری سکروی سے ان گنت چینی مزدور مارے گئے. ان گم نام زرد اجنبی چہروں نے دنیا کے اس ترقی یافتہ ملک کو اس کے موجودہ خد و خال دیے ہیں. میں نے پوچھا. کیا دنیا بھر میں ریل کی پٹریوں کی چوڑائی ایک جیسی ہوتی ہے؟ یانی آپا بولیں. بلکل. ہر جگہ ١٤٣٥ ملی میٹر چوڑی . جب رومن دنیا پر حکمران تھے تو دور تک پھیلے زیر اثر علاقوں تک رسائی کے لئے سڑکیں بنائی گئیں . سڑکوں کا رومن چیریٹ کے پہیوں کی چوڑائی کے مطابق ہونا ضروری تھا. ریل کے موجد جارج سٹیفنسن نے پہلی ریلوے لائن تعمیر کی تو رومن چیریٹ کی یہ چوڑائی برقرار رکھی. پھر یہ ایک عالمی اصول بن گیا. روم کے ان قدیم راستوں کی باقیات آج بھی موجود ہیں....... جاری ہے  www.valueversity.com2022-05-0204 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYNOU UMR KARACHI. DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 81Young Jinnah and juvenile Karachi shared a dream of a country where people of all caste, creed, race, religion and gender would co exist peacefully without any bias. Is the dream alive? نو عمر کراچی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکیاسیواں انشا، شارق علی بحری جہاز میں شہر سے رخصت ہوتے وقت چارلس نیپیئر  نے کہا تھا. اے کاش کبھی واپسی ہو اور میں تمہاری عظمت کا عروج دیکھ سکوں. انکل پٹیل نو عمر کراچی کو یاد کر رہے تھے. بولے. مچھیروں کی بستی شہر تب بنا جب انگریز کی دور رس نگاہوں نے فوجی اور تجارتی بندرگاہ کی اہمیت بھانپ کر نیپیئر کی قیادت میں میونسپل قائم کی اور بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ خرچ کیا. پھر آبادی بھی تیزی سے بڑھی. ١٨٥٧ کی جنگ آزادی میں یہاں مقیم اکیسویں نیٹیو انفنٹری نے بغاوت کی تھی لیکن انگریز نے جلد ہی اسے کچل دیا. ١٨٦٤ میں پہلا ٹیلیگرام اور ١٨٧٨ میں ریلوے کا نظام آیا. میری رائے میں سب سے تاریخ ساز لمحہ ١٨٧٦ میں قائد کی اس شہر میں پیدائش ہے. کیسا ہنستا بستا شہر تھا کراچی بیسویں صدی کے شروع میں. آبادی ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ. کلفٹن کے ساحل کی نرم ہوا کا ہاتھ تھامے جہانگیر کوٹھا ری پریڈ پر چہل قدمی سے دل اوبھ جائے تو لمبی سیر کرتے فریئر حال کے حسن کو سرہاتے ہوے الفی کی فیشن ایبل دکانوں کے پاس سے گذرتے ہوۓ ایمپریس مارکیٹ چلے جائے. شام ڈھل رہی ہو تو نیٹیو جیٹی کے پل سے بندرگاہ کی سمت اڑتے آبی پرندوں کا سحر انگیز نظارہ کیجئے. جی چاہے تو چاندنی رات میں سینٹ پیٹرک چرچ کی عمارت سے سرگوشیوں میں دل کی بات کہئے. ١٨٨١ میں بنے گوتھک طرز کے اس چرچ میں پندرہ سو لوگ ایک ساتھ عبادت کر سکتے ہیں. بیرونی عمارت بہت سجی ہوئی تو نہیں لیکن کچھ فاصلے سے دیکھو تو بھرپور رومانوی تاثر ہے اس میں. ساری آرائش اور کاریگری اندرونی عمارت میں نظر آتی ہے. کشادہ ہال اور سامنے دور سے نظر آتا رسومات کے لئے بنا الٹار . دیواروں پر آئل پینٹ اور رنگین شیشوں سے سجی کھڑکیاں. ١٩٧٨ میں سو سالہ سالگرہ پر خصوصی ٹکٹ جاری ہوا تھا اور مدر ٹریسا  کا استقبال بھی کیا ہے اس نے. وہی چرچ نہ جہاں ١٩٩٨ میں عبادت ختم ہونے کے چند منٹ بعد بم کا دھماکہ ہوا تھا؟ میں نے پوچھا. بےحد اداس ہو کر بولے. ہاں وھی. قائد کے نو عمر کراچی میں مسجدیں، مندر، چرچ سب موجود تھے اور برابر سے قابل احترام . ہندو، مسلم، عیسائی ہاتھ میں ہاتھ تھامے خوش باش شہری تھے یہاں کے. اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں قائد نے دو ٹوک الفاظ میں سب کو برابر کا شہری اور ریاست کو مذہب سے آزاد قرار دیا تھا. قائد کا دیا یہ اصول ہی امن بحال کر سکتا ہے یہاں. دادا جی بولے. یاد رکھنا ممدو  ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور مساوی حقوق اور احترام کا حقدار. اگر ہم عقل رکھتے ہیں اور ہمارا ضمیر زندہ ہے تو ہم سب قدرتی طور پر ایک دوسرے کو بالکل اپنے جیسا سمجھیں گے اور عالمی انسانی حقوق کا احترام کریں گے. یانی آپا بولیں. نفرت ایک بد صورت اور مکروہ عمل ہے ممدو. محض تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے ہم اقلیت سے اس کی شناخت اور آزادی رائے کا بنیادی حق نہیں چھین سکتے. کوئی فلسفہ،عقیدہ، یا نظریہ سچا ہو ہی نہیں سکتا اگر وہ نفرت کا پرچار کرے. نسل،قومیت، مذہب، زبان یا ثقافت، بنیاد چاہے کچھ بھی ہو...........جاری ہے   www.valueversity.com2022-05-0105 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYMEHERBAN LAMHA, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 80MEHERBAN LAMHA مہربان لمحہ، دادا اوردلدادہ ، انشے سیریل، اسیواں انشا TREVI FOUNTAIN, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 80 In the eternal city of Rome, Trevi Fountain is a triumphant example of Baroque art using water and stone commemorating a moment of compassion in history  مہربان لمحہ دادا اور دلدادہ ،انشے سیریل، اسیواں انشا، شارق علی گرمیوں کی خوشگوار رات میں اسپینش اسٹیپس نامی چوک سے پیدل ہی نرم ہوا کا ہاتھ تھامے مشہور زمانہ ٹریوی فاؤنٹین کی طرف چلے. آبدی شہر روم کی قدیم گلیوں کے دونوں جانب نئی اور پرانی عمارتیں، ریستوران اور مے خا نے تھے. دادا جی اٹلی کو یاد کر رہے تھے. بولے. گلیوں کے کنارے رنگین چھتریوں تلےرکھی اور موم بتیوں سے روشن میزوں پر ملک ملک کے سیاح اور ان کے سامنے سجے خوش رنگ کھانے اور مشروبات. ہر سمت سے آتی  اطالوی موسیقی کی رومانوی آواز . فوارے تک پہنچے تو رات گہری ہو چلی تھی. ہلالی شکل کے چبوترے پر بیٹھے اور کھڑے دنیا بھر کے سیاح اپنی زبانوں، اپنے انداز میں ہنستے بولتے تصویریں بنوا رہے تھے. سامنے سفید پتھروں سے تراشے شاھکار مجسمے اور بڑے سے حوض کے شفاف پانی میں گرتے فواروں کی جل ترنگ. حوض کی تہہ میں انسانی آرزوں کی علامت پھینکے گئے وہ سکّے تھے جو اس خوبصورت مقام کی ایک دیرینہ رسم ہے. پیچھے تین منزلہ سفید پتھروں سے بنی دیوار نما یادگار تھی جس کے ہر کونے، ہر ستون اور ہر زاویے پر مزید مجسمے اور تراشے ہوۓ حسین نقش و نگار تھے. سنگ تراشی کا فن کب شروع ہوا دادا جی؟ میں نے اچانک پوچھا. بولے. ہزاروں سال پہلے شاید شکاریوں کی جادوئی مدد حاصل کرنے کے لئے اس کی ابتدا ہوئی ہو. تہذیبیں  پروان چڑھیں تو حکمرانوں کے لازوال ہونے کی خواہش نے سنگتراشوں کی سر پرستی کی. یونانیوں نے انسانی خد و خال کے توازن کو عروج پر پہنچایا . پھر عیسائیوں نے چرچ کو فرشتوں اور شیطانوں کے مجسموں سے آراستہ کیا تا کہ جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ بھی ان کرداروں کو جان سکیں. زیادہ تر مجسمے در اصل یادگاریں ہیں. پندرھویں صدی میں اٹلی کے ہر شہر کی گلیوں میں بائبل کے کردار مجسموں کی صورت بکھرے ہوۓ تھے. اب تو نیو یارک ، لندن پیرس، اور ہر بڑے شہر کے چوک میں مجسمے اور فوارے دکھائی دیتے ہیں. یانی آپا بولیں. ٹریوی فاؤنٹین دراصل میلوں لمبی اس زیر زمین آبی گزرگاہ کا آخری مقام تھا جو ١٩ ق م میں روم کے بادشاہ نے تعمیر کی تھی اور جس تک ایک حسین دوشیزہ نے پیاسے رومن سپاہیوں کی رہنمائی کر کے ان کی جان بچائی تھی . کسی مہربان لمحے کی ایسی خوبصورت یادگار دنیا میں کہیں اور نہیں. رحمدلی  اور مہربانی ایک ہی بات ہے نا دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے. دوسروں کے دکھ کو محسوس کرنا رحمدلی ہے. مد ا وے کے لئے وسائل کی قربانی پر راضی ہو جانا مہربانی ہے. تمہیں بابل کو ننگے پیر دیکھ کر رحم آیا تھا. لیکن جب تم نے اسے اپنے پرانے جوگر پہنا دیئے تو یہ مہربانی ہوئی . اچھے لوگ ہر روز مہربانی کا موقع تلاش کرتے ہیں کیونکہ ان کے لئے رشتے اور محبّت اہم ہوتی ہے . یانی آپا بولیں. باروک طرز تعمیر میں ٹریوی فاؤنٹین دنیا کا سب سے مشہور فوارہ ہے جس پر بہت سی فلموں کی عکس بندی ہو چکی ہے. چوتھی صدی عیسویں میں روم کی گلیوں میں ایک ہزار سے زیادہ ایسے فوارے تھے. پھر وقت نے آبی گزرگاہیں معدوم کر دیں . لیکن مہربان لمحے کی یہ حسین یادگار آج بھی زندہ ہے.......جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-3005 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSHAOR E ZAAT, DADA AUR DILDADA SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 79SHAOR E ZAAT شعور ذات، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اناسیواں انشا SELF AWARENESS, GRANDPA & ME, URDU / HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 79 Mamdu learns that self is not only tangible things e.g. body and possessions but also thoughts, values, moral standards, spiritual beliefs and relationship to the creator. He discovers that subjective description of who we are in our inner talk is our self awareness شعور ذات، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اناسیواں انشا، شارق علی صدر کے مرکزی بازار میں بس رکتی تو میں اور جوجی پالتو پرندے دیکھنے ایمپریس مارکیٹ جاتے. انکل تھے اور کراچی کی یادیں. بولے. جانے کب سے جمے میل کی تہوں میں گم سنگ مر مر کی سیڑھیاں اور فرش. دیواریں پان کی پیکوں اور سیاسی پوسٹروں سے ڈھکی ہوئیں. جدھر دیکھو لوگ ہی لوگ، کان پڑی آواز سنا ی دینا مشکل. کھٹمل، چھپکلی مارنے کی دوائی اور سلاجیت بیچنے والوں کی دلچسپ چیخ و پکار. ٹھیلے والوں کے گرما گرم توے پر بھنتی کلیجی کی تیز مہک،مرچوںمصالحوں کی دھا نس. پھل، سبزی ، گوشت، مچھلی، خشک میوے، کپڑے، کتابیں اور پالتو جانور، کیا نہیں بکتا وہاں پر . دونوں کم عمر تھے. یہ بھرپور سماجی تجربہ ہمارے شعور ذات میں اضافہ کرتا. شعورذات کیا ہوتا ہے دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے . خود اپنے بارے میں قائم کی گئی ہماری ذاتی رائے جس کی بنیاد پر ہمارا سماجی رویہ تشکیل پا تا ہے. ہمارے ذہن میں خود اپنے، سماج اور کائنات کے بارے میں بنی ایک اندرونی تصویر. اس  ہی کی مدد  سے ہمارا اندرونی اخلاقی نظام تشکیل پاتا  ہے اور ہم زنداگی میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتے ہیں. یا نی آپا بولیں. شعورکی ابتدا تو ہماری پیدائش سے ہی ہو جاتی ہے. وقت گزرے تو مذہب، سیاسی پسند نا پسند، ذات پات، سماج، ذاتی رشتے اور توقعات سب ہی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں. وہ سب بھی جو ہم اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں ، دوستوں، استاد اور شاگردوں سے سیکھتے ہیں. انکل نے کہا. ایمپریس مارکیٹ سے خریدی ایک کتاب میں ہی یہ اصطلاح میں نے پہلی بار پڑھی تھی. وہیں یہ خیال بھی آیا کہ جانے اس مارکیٹ میں گھومنے والوں کو یہاں کے ماضی اور پوشیدہ حسن کا شعور ہے بھی یا نہیں. بوڑھا امامی باجرہ تولتے ہوۓ فخریہ کہتا. یہ مارکیٹ وتی پرانی ہے جتا ملکہ ٹوریہ کا راج. پھر میرے خیال کا پرندہ اڑکر ڈیڑھ سو سال پیچھے پہنچ جاتا. ١٨٥٧ کی جنگ آزادی ناکام ہوئی تو انگریز سامراج نے کراچی کے لوگوں پر خوف طاری کرنے کے لئے اسی چوک میں باغی سپاہیوں کی گردنیں توپوں کے سامنے رکھ کر جسم سے جدا کر دی تھیں. پھر ١٨٨٤ میں یہ مارکیٹ تعمیر کی گئی اور ایمپریس اوف انڈیا ملکہ وکٹوریہ کے نام سے منسوب ہوئی. ڈی جے کالج کی طرح اس کا ڈیزائن اور تعمیر کا سہرا بھی میونسپل انجنیئر جیمز اسٹریچن کے سر ہے. بیچ میں بڑا سا کورٹ یارڈ تھا اور ارد گرد چار گیلریاں جن میں ٢٨٠ دکانیں اور چھوٹے اسٹالوں کی گنجائش موجود .سیر و تفریح کے لئے قریب ہی واقع جہانگیر پارک موجود. وجود کیا ہوتا ہے دادا جی؟ میرا ذہن اب تک شعور ذات کی بحث میں الجھا ہوا تھا. بولے، ایک ہی شخص کا ایک تو مادی وجود ہوتا ہے جس میں جسم، سماجی حیثیت، تعلقات، گھر گاڑی جیسی مادی چیزیں آ جاتی ہیں. لیکن سب سے اہم اس کا روحانی وجود ہوتا ہے. سوچ، اخلاقی نظام، معیارات ، دوسرے لوگوں اور کائنات اور خالق سے اس کا تعلق. وہ خود کو اپنے ذہن میں کسی خاص مقام یا روپ میں دیکھ کر ہی خود پر کوئی لیبل چپکاتا ہے اور پھر اپنے آپ کو ویسے ہی لہجے میں مخاطب کر کے اس اندرونی مکالمہ کے ذریعیے شعور ذات تک پہنچتا ہے. یہ کامیاب  اندرونی سفر ہی دوسرے انسانوں اور سماج سے اس کے صحتمند تعلق کی بنیاد بنتا ہے.........جاری ہے www.valueversity.com2022-04-2905 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYWAQT KI BAT, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 78WAQT KI BAAT وقت کی بات، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اٹھترواں انشا BIG BEN, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 78 Big Ben is the nickname of the bell of the clock of Westminster palace. Mamdu wonders has it played any role in British punctuality? Explore the clock and the importance of time together in this story www.valueversity.com2022-04-2704 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYDEHSHAT KA TAWAZUN, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 77DEHSHAT KA TAWAZUN دہشت کا توازن، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستترواں انشا BALANCE OF TERROR, GRANDPA & ME , URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 77 Intellectual social activism is needed to oppose nuclear conflict and protect human values.  Such a conflict is a real possibility. This story attempts public awareness in order to avoid possible destruction of entire humanity دہشت کا توازن، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستترواں انشا، شارق علی ٹی وی پر یوم آزادی کی پریڈ ختم ہوئی تو میں نے کہا. ہماری طاقت امن کی ضمانت ہے. یانی آپا بولیں. امن کی ضمانت شعور مندی اور محبّت ہوتی ہے ممدو. دہشت کے توازن پر قائم عالمی امن کتنا دیرپا ہے کوئی نہیں بتا سکتا.  ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ سرحد ملے ہند و پاک کی عوام جو افلاس اور جہالت سے پہلے ہی بے حال ہے کسی صورت ایٹمی تصادم کے نتائج سہار نہیں سکتی. کیا ایٹمی جنگ حقیقی خطرہ ہے دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے. بالکل . ایسی جنگ شاید دنیا کی آخری جنگ ہو. دوسری جنگ عظیم کی واحد ایٹمی طاقت امریکا کے جاپان پر گراۓ دو ایٹم بموں کی تباہی کے کچھ سال بعد ہی سوویت یونین بھی ایٹمی طاقت بنا تو سرد جنگ کا آغاز ہوا تھا. ستر اور اسی کی درمیانی دہائی میں دونوں ملکوں کے عوام خوف کا شکار رہے. کروڑوں لوگوں کے یکد م مر جانے کا خوف، انسانی تہذیب کی ایسی تباہی جسے بحال کرنے میں سینکڑوں نہیں تو دسیوں برس ضرور لگیں گے. اس زمانے کی کئی فلمیں اسی خوف کی مظہر ہیں. دی ڈے آفٹر ، وار گیمز، پلانٹ آف دی ایپس وغیرہ. سرد جنگ میں دونوں ملک ایک دوسرے کے نشانے پر رہے لیکن جنگ نہ ہوئی. ہو جاتی تو جیت کسی کی نہ ہوتی اور ہار دونوں کی. انکل نے کہا. آج سات ممالک ایٹمی طاقت ہیں اور دنیا کے خطوں میں تناؤ اور جنگ کی کیفیت بھی موجود. آج بھی عالمی سیاست اور دانشوروں کے ذہن اس خدشے سے پریشان ہیں کہ کیا ہو گا اگر کسی ایٹمی ملک کی قیادت ناکام حکومت، شدّت پسند سوچ یا دہشت گرد تنظیم کے ہاتھ میں آ جائے ؟ دادا جی بولے. کچھ احمق جنگجو مختصر ٹیکٹیکل ایٹمی جنگ یا فیئر گیم کی بھی بات کرتے ہیں جس میں صرف مخالف فوجی قوت کو نشانہ بنا کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے . یا روایتی جنگ ہارنے کی صورت میں دشمن کے اہم شہروں پر ایٹمی وار کیا جاۓ . ایسے بنکر بنانے میں وسائل خرچ کئے جائیں  جہاں غذا کے ذخیرے موجود ہوں اور ممکنہ قیادت یا شہری جانوں کا نقصان کم کیا جا سکے. حقیقت یہ ہے کہ ایک دفعہ ایٹمی جن بوتل سے باہر آ گیا تو اسے قابو کرنا نا ممکن ہو گا. ہاں پہلا وار نہ کرنے کی یقین دہانی کے معاہدے یقیناً ایک مثبت پیش رفت ہیں. یا نی آپا بولیں. دنیا کے ہر خطّے اور ہر زبان کے شعور مند ادیب اور فنکار اپنی تحریروں اور فن پاروں میں انسانی تہذیب کے لئے اس حقیقی خطرے کو اجاگر کرتے رہتے ہیں. کیونکہ علم،  ادب،موسیقی، انسانی ہاتھوں سے تعمیر دنیا، بچوں کی ہنسی، نو جوان مستقبل ، شعورمندی اور زندگی، غرض یہ کہ سب کچھ کھو دینے کا خطرہ جو ہے. تہذیبی اختتام کا المیہ اور باقی ماندہ لٹی پٹی انسانیت کی دردناک زندگی کا قصہ. انسانی تہذیب کے چشم زدان میں ہزاروں سال پیچھے چلے جانے کا دکھ بھرا احوال، شاید اس سب کی بار بار نشاندہی ہمیں اس پاگل پن سے محفوظ رکھ سکے.......جاری ہے www.valueversitycom2022-04-2604 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYDILLI O DILLI, DADA AUR DILDADAH SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODEDILLI O DILLI دلی او دلی، دادا اور دلدادہ انشے سیریل، چھیترواں انشاء DELHI OH DELHI, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 76 Delhi is the capital of various kingdoms and empires for centuries and has been captured, ransacked and rebuilt several times. Taste the richness of culture in this story دلی او دلی، دادا اور دلدادہ انشے سیریل، چھیترواں انشاء، شارق علی رات گئے دلی کے محلہ وسنت گنج میں واقع ناتھ گیسٹ ہاؤس پہنچے تو تھکن اور نیند سے برا حال تھا۔ کپڑے بدلے اور بستر میں۔ چڑیوں کی چہچاہٹ نے جگایا تو کمرے سے نکل کر بر آمدے اور پھر باغ میں آیا۔ صبح کی کرنیں گھاس پر پڑی شبنم کو جھلملا رہی تھیں۔ ایک ایکڑ پر پھیلے برطانوی طرز کے اس گیسٹ ہاؤس کی کیاریاں پھولوں اور اگائی ہوئی سبزیوں سے لہلہا رہی تھیں۔ باغ کے بائیں طرف غالبا ًمغل دور کا آم کا درخت تھا۔ جس کی شاخوں پر چھوٹے بڑے لاتعداد طوطے بیٹھے چہچہا رہے تھے۔ انکل پٹیل انڈیا کی راجدھانی کو یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ فضاء میں لیموں اور مرچ کی مہک تھی۔ ایک طرف سوئمنگ پول بھی موجود۔ باغ کی سیر کے بعد چھولے بھتورے کا ناشتہ کیا اور دوپہر کے لئے وہیں کی اگی آلو گوبھی کی سبزی کا آرڈر دیا۔ جوگر پہنے اور چند گلیوں سے گزر کر لودھی گارڈن سیر کو پہنچ گئے۔ دونوں جانب کہنہ سال درختون کی قطاریں جیسے صدیوں کی تاریخ شاخوں میں چھپاے ہوئے ہوں۔ صفدر جنگ کا مقبرہ اور خان مارکیٹ بھی نزدیک ہی تھی مگر فرصت نہ مل سکی۔ انڈیا گیٹ کوئی میل بھر دور۔ چاندنی چوک دیکھا آپ نے؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ پرانی دلی کے قدیم بازار کو جیسا سوچا تھا اس سے مختلف پایا۔ فصیل بند دلی کا مرکزی مقام تھا یہ کسی زمانے میں۔ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آراں نے سولہ سو پچاس میں کس چاؤ سے چو کور تعمیر کروائی تھی اس بازار کی جس میں پندرہ سو دوکانیں تھیں۔ زیادہ تر چاندی کے برتن اور زیورات کی۔ شاید اسی لئے چاندنی چوک کہلایا ہوگا یہ۔ چاندی کا استعمال کب شروع ہوا دادا  جی؟ میرے ذہن نے کروٹ بدلی۔ دادا جی بولے۔ کانسی کے دور ہی سے چاندی کی بنی چیزوں کے آثار بھی ملتے ہیں۔ یورپ اور مغربی ایشیاء میں با آسانی دستیاب تھی یہ دھات۔ مشکل یہ تھی کہ چاندی اور لیڈ ایک ساتھ پائے جاتے ہیں اور چاندی نکالنے والے دو تین سالوں ہی میں لیڈ کے زہریلے اثرات کے باعث مر جاتے تھے۔ پھر یہ کام صرف غلاموں سے کروایا جاتا رہا۔ 500 ق م میں ایتھنز کے قریب چاندی کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا تھا۔ اسی دولت سے ایتھینز ایک خوشحال شہری ریاست اور مضبوط بحری طاقت بنا تھا۔ خالص چاندی بہت نرم ہوتی ہے۔ برتن اور زیور بنانے کے لئے اس میں تانبے کی ملاوٹ کرنا پڑتی ہے۔ یا نی آپا بولیں۔ میں نے تو سنا ہے چاندنی چوک کا نام یہاں کی مرکزی نہر سے چاندنی کے بے مثل نظارے کی وجہ سے پڑا تھا۔ انکل بولے۔ شاید یہ ہی ٹھیک ہو لیکن نہر یا حوض تو نظر نہ آیا ہاں گھنٹہ گھر ضرور تھا بیچ میں۔ وقت سب کچھ تبدیل کر دیتا ہے۔ تاریخ کا غم ہلدی رام کے مزیدار کھانوں سے غلط ہوا۔ کیا مٹھائی بناتا ہے ظالم۔ سوہن پپڑی کا تو جواب ہی نہیں۔ لال قلعہ بھی زیادہ دور نہیں ہے وہاں سے۔ ناتھ گیسٹ ہاؤس کے ویجیٹیرین کھانوں سے طبیعت اکتا جاتی تو گلی کبابیاں میں کریم کے ذائقہ دار کھانوں سے طبیعت بہلاتے۔ رومالی روٹی کے ساتھ خاص مغلئی مصالحے اور ترکیبیں سینہ در سینہ ایسی کہ  آدمی انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ دلی تو داستانِ الف لیلا ہے ممدو۔ باقی پھر کبھی اور صحیح۔۔۔جاری ہے   www.valueversity.com2022-04-2505 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYAMN YA INTISHAR, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 75AMN YA INTISHAR امن یا انتشار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پچہترواں انشا  PEACE OR CHAOS, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 75 In order to see how democracy and civil society works so successfully in Tenby, a small peaceful town of West Wales, and why it fails again and again in Pakistan, please find four minutes to listen to this story  امن یا انتشار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پچہترواں انشا، شارق علی ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے ہجوم نعرے لگا رہا تھا. ہیلتھ یونٹ کی بندش نا منظور. گول پتھروں سے بنی چھوٹی سی سڑک کے ارد گرد جیورجین طرز کے مکانات، کیفے ، پھولوں اور تحفوں کی دکانیں اور بیچ سے گزرتا کوئی سو ڈیڑھ سو بوڑھوں ، بچوں اور جوانوں پر مشتمل یہ جلوس. نہ کوئی توڑ پھوڑ نہ خوف و ہراس. کاروبار حسب معمول جاری. مظاہرے سے زیادہ میلے کا سماں تھا. دادا جی ویسٹ ویلز کے تاریخی قصبے ٹینبی کا ذکر کر رہے تھے. بولے. ہمارا قیام قصبے سے باہر کیروان پارک میں تھا. چار بستروں کا سفید کیراوان ، چھوٹا سا کچن، لونگ روم، گیس، بجلی، پانی اور انٹرنیٹ بھی مہیا. نسبتاً اونچا ی پر واقع چھوٹا سا خوش باش قصبہ ہے ٹینبی . ایک جانب سنہری ریت کا پر سکون ساحل سمندر اور چھوٹی سی بندرگاہ میں کھڑی دلکش کشتیاں اور دوسری جانب سر سبز و شاداب وادی کا حسین منظر. سمندر کا پانی اتنا ٹھنڈا کے نہانے کی ہمّت نہ ہوئی. مجھے تو دور تک ساحل پر ٹہلنا اچھا لگا. پندرھویں صدی کے ٹیوڈر تاجروں کے گھروں کی سیر بھی کی جو اس قصبے کے سنہری دور کی یاد گار ہیں. جنگی اہمیت کی فصیل کی باقیات بھی دیکھیں. تعمیر کرنے والوں کی مہارت کا ثبوت ہیں اور نجانے کتنی بھولی بسری کہانیاں سمیٹے ہوۓ . ایک چھوٹا سا ریلوے سٹیشن بھی ہے وہاں. صفائی، منظم راہگیر اور ٹریفک، تہذیب اور شائستگی، قانون کی پاسداری اور تحفظ کا احساس بہت اچھا لگا. پھر ہمارے ملک میں اتنا انتشار کیوں؟ میں نے دکھی ہو کر پوچھا. انکل بولے. نام کی جمہوریت کا چوغہ پہنے ظالم جاگیر داری نظام، بد دیانت حکمران اور غیر متحرک سول سوسائٹی اس کی چند وجوہات ہیں. ایک ہی طبقہ مسلسل حکمران رہے تو جمہوری عمل پر اعتماد ختم اور مایوسی بڑھتی چلی جاتی ہے، حکومتی گرفت کمزور ہو تو مفاد پرستوں کا راج ہوتا ہے. دادا جی بولے. ٹینبی ہی کی مثال لے لو. ہر فرد مقامی اور ملکی مسائل اور سیاست میں حصّے دار نظر آیا. ایسا جمہوری رویہ جس میں برداشت، اعتدال پسندی اور ایک دوسرے کے مفاد کا خیال رکھا جاتا ہے. نئی نسل کو اسکول میں تعلیم اور مباحثوں سے سیاسی قیادت کے لئے مسلسل تیار کیا جاتا ہے. درست معلومات کی عام آدمی کو فراہمی اور آزادی رائے حکومتی مفاد میں سمجھی جاتی ہے. معاشی ترقی کے لئے مسلسل کوشش اور تمام طبقوں کے لئے مساوی مواقعے کا اصول تسلیم کیا جاتا ہے. یانی آپا بولیں. ہم جیسے ملکوں سے انتشار کا خاتمہ تب ہوگا جب گلیوں اور محلوں کی سطح پر عام لوگوں کی شمولیت سے سچی جمہوریت قائم ہو جاے . اور موجودہ مفاد پرست اور جاگیر داری نظام کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا جاے ...........جاری ہے www.valueversity.com2022-04-2401 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYAITMAAD KA PUL, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 74AITMAAD KA PUL اعتماد کا پل، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، چوھترواں انشا  Bridges of trust built on the firm belief of reliability, truth and strength of each other is the basis of human happiness and success for individual and societies. Explore trustworthiness in this story  اعتماد کا پل، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، چوھترواں انشا، شارق علی سڑک پر تیز ٹریفک اور فٹ پاتھ پر حولدار رحمت کے پیچھے میں، پھر جوجی اور قطار بنائے ٹوٹے قدموں کی مارچ کرتے فوجی وردی پہنے بیالیس طلبہ تھے. نیشنل کیڈٹ کور کا یہ دستہ فائرنگ مشق کے لئے رائفل کلب جا رہا تھا. انکل کالج کے دنوں کا کراچی یاد کر رہے تھے. بولے. دستے کو راہگیروں کی دلچسپی،  کچھ بچوں کی ستائشی نظروں اور چند آوارہ نوجوانوں کے اوئے ٹلے کے نعروں کا سامنا تھا. پی آئ ڈی سی بلڈنگ سے دایں ہاتھ مڑ کر پل کی جانب چلے جس کے اوپر آتی جاتی گاڑیاں اور نیچے بے گھر افراد اور نشے کے عادیوں کے لئے بچی کھچی زمین پر تپتی گرمی سے بچنے کے لئے ٹھنڈی چھاؤں کا خواب آور انتظام تھا تو جوجی نے کہا. یوں تو کراچی شہرکو کیماڑی سے ملانے والا نیٹو جیٹی کا پل جو 1854 میں برٹش راج میں بنا تھا کئی کہانیوں کا مسکن ہے لیکن یہ پل جس سے ہم گزر رہے ہیں پہلے چا ند ما ری پل کہلاتا تھا. جب سے دو محبّت کرنے والوں نے یہاں سے کود کر ایک ساتھ دنیا کو الوداع کہا ہے تب سے یہ لورز برج کہلاتا ہے. یا نی آپا بولیں. اعتماد کا وہ پل جو دو دلوں کے درمیان قائم تھا کاش اس کی حدیں سماج تک بھی پہنچ سکتیں تو کہانی کا انجام کچھ اور ہوتا. اعتماد کا پل؟ میں کچھ گڑبڑایا. دادا جی بولے. پل کا مقصد دریا یا کھائی کو عبور کر کے دوریوں کو کم کرنا اور رابطے کو ممکن بنانا ہی تو ہے. باہمی اعتماد بھی انسانی رشتوں کے درمیان بلکل یہی کام کرتا ہے ممدو. اعتماد کے پل نہ صرف انسانوں بلکہ تہذیبوں کوبھی با وقار اور پائیدار بناتے ہیں. ایسے پل وہ لوگ تعمیر کرتے ہیں جن کی نیت اور عمل اچھا ہو اور جن کی قابلیت اچھے نتائج حاصل کر سکے. جو بلا روک ٹوک سچ بول سکیں. لوگوں کی عزت کریں انھیں قابل استعمال نہ سمجھیں. غلط تاثردے کر اپنی شان میں اضافہ نہ کریں. یہ سب تو مجھے ایدھی صاحب ہی میں نظر آتا ہے؟ میں نے کہا. دادا جی بولے. بالکل درست. اعتماد کے پل کی اس سے بہتر مثال ممکن نہیں. مظلوموں اور بے آسراوں کی ترجمانی کرنے والے. دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والے یقیناً قابل اعتماد ہوتے ہیں. وہ وقت اور وسائل کی اہمیت کو سمجھتے ہیں. اپنے مسائل کی مکمل ذمے داری لیتے ہیں. الزام تراشی کا راستہ اختیار نہیں کرتے. انسانیت کی خدمت کا عزم اور مسلسل سیکھنے کی لگن دل میں رکھتے ہیں۔ لوگ سیاستدانوں پر کیوں اعتماد نہیں کرتے؟ میں نے پوچھا۔ انکل بولے۔ کردار اور قابلیت دونوں نہ ہوں یا جانتے بوجھتے دھوکہ دہی کو اختیار کر لیا جائے تو قابل اعتماد کیسے بنا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات کئے گئے کمزور فیصلے یا اچھی نیت کے باوجود ہوجانے والی غلطی یا صلاحیت کی کمی یا محض کوئی غلط فہمی لوگوں کے اعتماد کو مجروح کر دیتی ہے۔ اعتماد بحال کرنے کا راستہ بھی وہی ہے جو ایدھی صاحب نے اختیار کیا تھا۔ یا نی آپا بولیں۔ محبت کر سکنے کی اہلیت حاصل کر لینا ہی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم دوسروں کو اپنے جیسا انسان اور قابل احترام سمجھیں، نسل، مذہب، عقیدے ، امیری غریبی کے فرق کے بغیر۔ کسی صلہ کی توقع سے بے نیاز ہو کر۔ دوسروں کی صلاحیت کا کھل کر اعتراف کریں۔ ان کی کامیابی پر دلی خوشی محسوس کریں۔ ۔۔۔۔۔ جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-2305 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYJAWAB DEH, DADA AUR DILDADAH URDUHINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 73Accountability creates an environment of trust and lack of it result in chaos.  Public has a right to ask the leaders to justify their actions and decisions. Do political leaders feel accountable? جواب دہ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تہترواں انشا، شارق علی میڈنگلے ہال میں ہمارے قیام کا دوسرا دن تھا. کیمبرج سے چار میل دور یہ پر وقارعمارت چاروں طرف دل نشیں باغات سے گھری ہوئی ہے. ٹیچرزٹریننگ روایتی طور پر یہیں ہوتی ہے. انکل کیمبرج میں کیا کورس یاد کر رہے تھے. بولے. سولہویں صدی میں بنی سات ایکڑ پر پھیلی یہ عمارت ایک امیر آدمی کا فارم ہاؤس ہوا کرتا تھی. پرنس چارلس نے زمانہ طالب علمی میں اسے کرانے پر لے کریہاں قیام کیا تھا اور  اب اس کے کشادہ کمروں کو چودہ میٹنگ روم، ریستوران اور تیس رہائشی کمروں کے طور پر استعمال  کیا جاتا ہے. آرائش ، سہولتیں اور کھانے پینے کا انتظام اعلی درجے کا. عمارت کے گرد نایاب، قدیم اور خوبصورت درخت، پر سکون جھیل اور دور تک پھیلے فرحت انگیز سبزہ زار ہیں. شام ہوتی تو ہم گھنٹوں گھومتے. کورس گروپوں میں بٹ کر مختلف موضوعا ت پر مذاکروں پر مشتمل تھا. بارش ہو تو کمروں میں ورنہ باغ کےمختلف حصّوں میں مباحثے  ہوتے. اس دن کوفی روم میں ٹی وی پر لگی خبریں دیکھ کر فل نے کہا. ٢٠٠٣ کی رات دنیا کے ٹی وی سکرین بغداد پر بمباری کے مناظر دکھا رہے تھے اور آج ٢٠١٦ میں اس ہولناک اور بلا جواز جنگ کا فیصلہ کرنے والے ٹونی بلیئر احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہیں.اور شاید کل سزا وار بھی ہوں. یہ ہے احتساب کی طاقت. احتساب کیا ہوتا ہے دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے. صحتمند معاشرے  با اختیار لوگوں مثلاً حکمران، سیاستدان، جج، ڈاکٹر وغیرہ سے نہ صرف یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ دیانتدار ہوں گے بلکہ یہ بھی کہ وہ اپنے فیصلوں کو دلیلوں سے ثابت کرنے، ان کی منطقی وجوہات بتانے کے قابل بھی. احتساب کردار اور اہلیت کی درستگی کا تعین کرتا ہے. جیسے عدالت مجرم کو سزا دیتی ہے؟ میں نے پوچھا. یانی آپا بولیں. مقصد صرف سزا دینا نہیں ہوتا. احتساب دراصل اس ماحول کو کہتے ہیں جس میں باہمی اعتماد اور ہم آہنگ عملداری سماج کو سر افرازی کی سمت لے جا سکے. جس معاشرے میں دیانتدار احتساب نہ ہو اور صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لئے محض احتساب کا  لیبل لگا لیا جائے تو وہاں بد اعتمادی، مایوسی، انتشار، رشوت ستانی اوراقربا پروری جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں. پھر خود احتسابی تو ہر شخص پر لازم ہے. لیکن کیسے؟ میں نے پوچھا. دادا جی بولے. خود احتسابی دیانت دار سوچ سے شروع ہوتی ہے. وہ شخص جو اپنی اقدار، ترجیحات اور مقصد سے واقف ہو، اپنی صلاحیتوں، کامیابیوں اور ناکامیوں کی مکمل ذمّے داری لے سکے اور دوسروں پر الزام تراشی نہ کرے، وہ خود احتسابی سے فائدہ اٹھاتا ہے. کسی بھی قائد میں خود احتسابی کا ہونا بے حد ضروری ہے. بلند کردار اور عھدے کے لئے قابلیت رکھنے  والا قائد خود احتسابی سے آنیوالی مشکلات کے لئے خود کو تیار کر سکتا ہے، اپنی غلطیوں سے سیکھ  سکتا ہے........جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-2204 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYAVATAR, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 72Soon a graphical representation Avatar will become our on line identity in the the forthcoming three dimensional virtual world. It might be more good looking and well behaved than our actual self   ایواٹار ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، بہترواں انشا، شارق علی رات گئے ایکس بوکس کھیل کر سویا تو ڈراونا خواب دیکھا.عجیب سی چٹانوں سے ڈھکی نامعلوم دنیا میں آدھے روبوٹ آدھے انسان قبیلے سے میری جنگ اور جیت کے بعد جھیل کے پانی میں دکھائی دیتا میری ہی شکل کا روبوانسان ایواٹارجو مجھے گھور رہا ہے. جاگا تو بد ن پسینے میں شرابور تھا. ہاتھ منہ دھو کر ناشتے پر پہنچا تو سب موجود. خواب کا احوال سن کردادا جی بولے. عجائبات تواب ہماری دنیا میں بھی کچھ کم نہیں. مثلاً ملاقات، دوستی، اختلاف، بحث اور مباحثہ حقیقی دنیا سے زیادہ انٹرنیٹ پر ہونے لگا ہے، دوستوں سے ملنا کم اور واٹس اپ اور فیس بک کا کھولنا زیادہ ہوتا ہے. ڈاکیا دن میں ایک بار اور ای میل مستقل آتی رہتی ہے. تم بھی آج کل سامنے کم اور انٹرنیٹ دنیا میں تحریر، آواز، تصویر یا ویڈیو گیم کے کسی کردار کی صورت زیادہ مصروف رہتے ہو۔ یانی آپا نے کہا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ جلد ہی ممدو کا گرافیکل ہمزاد یا ایواٹار تین جہیتی انٹرنیٹ دنیا میں اس کی نمائندگی کر رہا ہو گا۔ بر وقت جواب دینے، دیکھنے، سننے، حتی کے چہرے کے تاثرات سے جذبات کا اظہار کرنے والا ایواٹار۔ انکل نے کہا۔ لفظ ایواٹار یا اوتار ہندو مذ ہب سے لیا گیا ہے۔ یعنی ایسا دیوتا جو عارضی طور پر انسان بن کر زمین پر اتر آئے۔ گویا ہمارے وجود کا ایک اور اضافی اور اگر ہم چاہیں تو ہم سے بھی زیادہ دیدہ زیب اور خوش اخلاق وجود جو انٹرنیٹ دنیا میں ہماری جسمانی غیر موجودگی کی کمی کو پورا کر  سکے گا ۔ یوں رابطوں اور رشتوں کی نئی صورتیں بھی جنم لیں گی۔ میں نے پوچھا۔ کیا ایواٹار ٹیکنالوجی کا کوئی عملی فائدہ بھی ہوگا ؟ انکل بولے۔ تصور کرو کہ ایک ماہر ایواٹار ڈاکٹر ہزاروں میل دور بیٹھے کامیاب آپریشن کر رہا ہے۔ کوئی سپروائزر ایواٹار کارکنوں کے کام کی نگرانی میں مصروف ہے۔ یورپی ممالک اس ٹیکنالوجی پر بہت سی رقم خرچ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے سامنے ممکنہ مالی فائدے  ہیں۔ یانی آپا بولیں۔ موبائل فون کی ذمہ داریاں بھی تواب روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ رابطہ، بینک کے کام، نیویگیشن، کیمرہ، گھڑی، موسیقی، سوشل میڈیا پر ویڈیو تفریح وغیرہ تو ہے ہی، اب اسے نبض اور بلڈ پریشر کی کیفیت اور ہم سب کی صحت کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔ دل بند ہونے کی صورت میں قریبی ہسپتال کو اطلاع دینا اوربجلی کا جھٹکا لگا کر دوبارہ دل دھڑکانا بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوچکا ہے۔ انکل بولے۔ کچھ برس بعد ایک بڑی تبدیلی بجلی اور پانی کی طرح  ہر جگہ انٹرنیٹ کی دستیابی ہو گی۔ دوکانوں، بازار، بس اسٹاپ، حتی کے گھروں کی دیواریں بھی کمپیوٹر اسکرین کے طور پر استعمال ہو سکیں گی۔ گویا انسان ہر وقت انٹرنیٹ پر جڑا رہ سکے گا۔ آتے جاتے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے، بیچ میں ہم اور انٹرنیٹ چاروں طرف۔ میں نے کہا۔ خود سے چلنے والی کاروں کا کامیاب تجربہ تو گوگل کب کا کر چکا۔ ایسی کاروں کا عام ہونا بھی اب زیادہ دور نہیں۔ مزہ تو تب آئے جب ہم سب انفرادی پرواز کے قابل ہو سکیں اور بہت جلد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-2104 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYKOLKATA KI TERESA, DADA AUR DILDADA SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 71Kolkata Ki Teresa کلکتہ کی ٹیریسا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکھترواں انشا Teresa of Kolkata, Grandpa & me, Urdu Hindi Podcast Serial, Episode 71 Enjoy the glimpse of the city of Kolkata and the story of a woman who established a hospice, centers for the blind, aged, disabled,  and a leper colony کلکتہ کی ٹیریسا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکھترواں انشاء، شارق علی دادا جی اپنے دوست جوشی کو یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ سلہٹ کے موسمِ بہار کی رات تھی اور جھلمل روشنی میں پول کے کنارے سجی میزوں پر ملک ملک سے آئے مندوبین اپنے روایتی لباس پہنے بیٹھے تھے۔ جوشی کی پر سوز آواز اور دوتارے پر ٹیگورکی مدھر دھن۔ ثقافتی شام کا اختتام تالیوں کی گونج میں ہوا۔ ہم دونوں گیسٹ ہاؤس کی جانب چلے تو دونوں طرف نیند میں ڈوبے چائے کے باغات تھے۔ کلکتہ کا احوال پوچھا تو بولا۔ شہر کیا ہے پورے مشرقی انڈیا کی نمائندہ جھلک سمجھو۔ دہلی کے راجدھانی بننے سے پہلے 1911 تک انگریزوں نے یہیں سے حکومت کی۔ درگا پوجا کا تہوار جس شان سے یہاں منایا جاتا ہے کہیں اور نہیں۔ ایڈن گارڈن دنیا کا تیسرا بڑا اسٹیڈیم ہے۔ ستر ہزار تماشائیوں کی گنجائش۔ کتاب سے محبت سب لوگوں  کو۔ پرانی کتابوں کا جتنا بڑا ذخیرہ یہاں ہے۔ شاید دنیا میں کہین اور نہ ہو۔ ایک بار کتاب میلہ لگا تو بیس لاکھ لوگ پہنچے تھے۔ 1902 میں ٹرام چلنا شروع ہوئی اور اب تک چلتی ہے۔ میٹرو بھی موجود اور ہاتھ گاڑی والے رکشاء بھی۔ رس گلوں کا تو جواب ہی نہیں۔ کڈرپور کی بندرگاہ پورے ہندوستان میں سب سے پرانی ہے۔ پھر یہ ٹیریسا کا شہر بھی تو ہے۔ کون ٹیریسا؟ میں نے پوچھا۔ دادا جی بولے۔ سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر چھوٹے سے قصبے اسکب جو اب میساڈونیا کی راجدھانی اسکوپجے کہلاتا ہے میں 1910 میں پیدا ہونے والی سولہ سالہ ٹریسا گھر چھوڑ کر انڈیا آئی اور 1997 میں آخری سانسوں تک بے آسرا مریضوں کی خدمت کرتی رہی۔ لیکن کیوں؟ میں نے پوچھا۔ یانی آپا بولیں۔ وہ آٹھ سال کی عمر میں یتیم ہوئی تو رومن کیتھولیک چرچ میں پلی بڑھی۔ کم عمری میں خدمتِ انسانی کے راستے خدا سے ناطہ جوڑا جو کبھی نا ٹوٹ سکا۔ مشنری کام کے لئے دارجلنگ پہنچی اور انگریزی سیکھی۔ پھر بنگالی سیکھ کر استانی بن گئی اور آخر کار کلکتہ کے اسکول میں ہیڈ ٹیچر۔ وہ استانی تھی تو پھر مریضوں کی خدمت کیسے کی؟ میں نے کہا۔ یانی آپا بولیں۔ چھتیس سال کی عمر میں میڈیکل ٹریننگ لے کر اس نے اپنا ادارہ قائم کیا۔ 1948 کے غریب انڈیا میں یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ کبھی فاقے کئیے کبھی بھیک مانگی۔ اس کا مشن بھوکوں، بے گھر لوگوں، بے آسرا اندھوں اور جزامیوں کی خدمت کرنا تھا۔ دھتکارے ہووں سے محبت کرنا، ان کی تعظیم اور جینے مرنے میں ان کا ساتھ دینا تھا۔ ادارہ شروع ہوا تو تیرا ننس تھیں۔ آج چار ہزار سے زیادہ ہیں اور  دنیا کے ہر گوشے میں موجود۔ 1979 میں اسے نوبل انعام دیا گیا۔ ایک دفعہ محازِ جنگ کے بیچ پوھنچ کرسینتیس بچوں کی جان بچائی تھی اس نے۔ البانیہ کا ایئر پورٹ اس کے نام سے منسوب ہے۔ مسلسل کام کرنے والی مرنے سے ایک رات پہلے تک خدمت میں مصروف رہی۔ کیتھولیک چرچ نے اسے سینٹ کا درجہ دے دیا ہے۔ کلکتہ کی سینٹ ٹیریسا۔۔۔۔۔۔ جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-2004 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYNAKAM MOHABBAT, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, SATARWA INSHA, EPSIDOE 70NAKAM MOHABBAT ناکام محبّت، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، سترواں انشا LOST LOVE, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 70 Only education can defeat extremism and poverty.  All girls in the world deserve to be empowered with education to make their own choices in life ناکام محبّت، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، سترواں انشا، شارق علی گھر کے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹاتے ہوۓ بھی نو سالہ ہاجراںقاعدہ، کاپی اور کچھ پنسلوں والا پرانا سا اسکول بیگ مستقل پیٹھ پر لادے رہتی. بقول یانی آپا. وہ ایسا عاشق تھی جس نے ناکام محبّت کو سینے سے لگا رکھا تھا. نصیبن  بوا، ہاجراں اور اس کا بھائی فیکا انکل کے سرونٹ کوارٹر میں رہتے ہیں. ہاجراں کے اسکول داخلے کی دوسری کوشش بھی ناکام ہوئی تو یانی آپا کا غصّہ دیکھنے والا تھا. نصیبن بوا ہاجراں کے بجاے فیکےکا داخلہ چاہتی تھیں. یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ نکما اور اسکول سے بھاگنے کا عادی ہے. ہاجراں کی تعلیم ان کی نظر میں بے کار تھی. حالانکہ ہاجراں جب یانی آپا سے قاعدہ پڑہنے بیٹھتی تو یوں لگتا جیسے عید کی نماز پڑھ رہی ہو. عقیدت اور خوشی سارے وجود سے کرنیں بن کر نکلتی. کھانے کے بعد لوڈو کھیلتے ہوۓ میں نے یانی آپا کو چھیڑا .  ہاجراں اچھا کھانا بنانا سیکھ لے تو کیا کافی نہیں؟ شرارت سمجتھے ہوۓ مسکرائیں اور بولیں. پاکستان میں تیس لاکھ اسکول جانے کی عمر کی بچیاں تعلیم سے محروم ہیں. اس کی ایک وجہ ایسی جاہلانہ سوچ بھی ہے. کتنے شرم کی بات ہے کہ دنیا بھر میں نسوانی تعلیم سے محروم تین ملکوں میں نائجیریا پہلا، پاکستان دوسرا اور آخری ملک ایتھوپیا ہے. تعلیم تو ٹھیک ہے لیکن لڑکیوں ہی کی کیوں؟ میں نے بات کو طول دیا. بولیں. لڑکا پڑھے تو ایک فرد لیکن لڑکی پڑھے تو سماج تعلیم یافتہ ہونے لگتا ہے ممدو. اضافی فائدے نہ ہوں تو بھی تعلیم عورتوں کا بنیادی حق ہے. لیکن ریسرچ سے ثابت ہے کہ نسوانی تعلیم اور زچہ اور بچہ کی اموات کا براہ راست تعلق ہے. صرف پانچویں تک تعلیم سے ستر فیصد زچہ اور پندرہ فیصد نو زائدہ بچوں کی جان بچائی جا سکتی ہے. غذائی محرومی سے بچوں کی اموات اور ان کی صحت بھی نسوانی تعلیم سے جڑی ہوئی ہے. عورتوں کی تعلیم بڑھے تو آبادی خود بخود کم ہونے لگتی ہے. کم عمری کی شادیاں اور زچگیوں کی پیچیدگیاں کم ہوتی چلی جاتی ہیں. انکل نے کہا. دنیا میں بنیادی تعلیم سے محروم لڑکیاں کروڑوں میں ہیں. بہت سوں نے اسکول کی شکل بھی نہیں دیکھی اور اب کوئی امکان بھی نہیں. لڑکوں کی صورت حال نسبتاً بہتر ہے. ایسا تو نہیں کہ اسلام سے دوری اس کی وجہ ہو؟ میں نے جمعے کے خطبے میں سنا جملہ دہرایا. بولیں. حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں. عربی بولنے والے خوش حال مسلمان خلیجی ممالک میں پچاس فیصد خواتین اب بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں . ان ممالک میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا استعمال دنیا کے تمام خطوں جیسے سب سحارا افریقہ کے ممالک سے بھی کم ہے. دادا جی بولے. ٢٠٠٥ کے کشمیر زلزلے میں سترہ ہزار اسکول جانیوالی عمر کے بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور ہزاروں معذور ہو گئے تھے. امید تھی کہ ہم سب اس سانحے سے سبق سیکھ کر پسماندہ علاقوں میں تعلیم کو عام کریں گے. صدافسوس ایسا نہ ہو سکا. یاد رکھنا ممدو صرف تعلیم ہی شدّت پسندی اور غربت کو ہرا  سکتی ہے. یہ نہ ہو تو نا شعور مندی ممکن ہے اور نہ کوئی عملی مہارت. صحت، خوش حالی، خوشی اور کار آمد زندگی، سب تعلیم سے جڑے ہوۓ ہیں.......جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-1904 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYJHOOT KA ASHNAN, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, INSHA, EPISODE 69DISTORTING HISTORY, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 69 Do we teach truth in our educational institutions? Distortion of history is a crime committed by control freak nationalists and religious extremists. The best way to come closer to truth for student is totality of experiences, both physical and cyber جھوٹ کا اشنان ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل،انہترواںانشاء، شارق علی بیگ کندھے پر ڈالے اسکول سے نکلا اور چند قدم کے فاصلے پر واقع آرٹس کونسل پہنچا تو دادا جی، انکل اور یانی آپا ریسیپشن پر موجود تھے۔ چائنیز سرکس شروع ہونے میں کچھ دیر باقی تھی۔ سامنے لان میں پڑی بینچوں پر بیٹھ گئےتو دادا جی نے میرے بیگ میں سے سوشل اسٹڈیز کی کتاب نکالی اور پڑھنے لگے. پھر بولے. نصاب لکھنے والا مل جائے تو خوب باز پرس کروں۔ کیوں دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے۔ نصاب کی بنیادی شرط ماضی اور حال کی سچی ترجمانی ہے تاکہ پڑھنے والا حقیقت شناس بن سکے اور زندگی میں درست فیصلے کر سکے ۔ تاریخ کو مسخ کرنا یا اسے جھوٹ کا اشنان دے کر پاک کر لینا مکروہ جرم ہے۔ انکل بولے۔ قومی یا مذہبی تشخص کی حمایت میں انسانی قدروں کو ہتھیا لینا اور آفاقی تہذیبی ورثے سے نوجوان ذہنوں کو دور کر دینا بے حد تنگ نظری ہے۔ مفادپرست ماہرین تعلیم اور حکومت دونوں ہی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ پہلا نصاب کب لکھا گیا دادا جی؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ درسگاہوں کا تحریری نصاب تو صرف دو سو سال پرانی بات ہے۔ پہلے کے شاگرد اپنی تعلیم کسی ماہرِ فن، مذہبی عالم یا سرکاری افسر کی نگرانی میں اس کی مرضی کے مطابق حاصل کیا کرتے تھے۔تقریباً چھ سو ق م میں میسوپوٹیمیا کے بادشاہ آشربانیپال کے حوالے سے شواہد ملتے ہیں کہ اس کے لکھےہوئے نصاب میں مذہبیات، حساب، ادب، گھڑ سواری، شکار، جنگی حربے، ہتھیاروں کا استعمال اور بگھی چلانے کی تربیت شامل تھی۔ یانی آپا بولیں۔ تعلیم کا مقصد سوال کرنے، تبدیلی کو قبول کرنے اور بدلتی صورتِ حال سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ مفروضوں کی بنیاد پر جھوٹے اعتماد کے ریتیلے قلعے تعمیر کرنا نہیں۔ صاحبِ اقتدار سادہ لوح عوام کے ذہنوں کو تعلیم کے نام پر اپنے مفاد کے مطابق ڈھال لینے کےلئے ایسا نصاب تیارکرتے ہیں۔ یہ اقتدار کو ہر صورت اپنے قابو میں رکھنے کا ایک گھٹیا حربہ ہے۔ پھر مجھ جیسے طالب علم آخر کیا کریں؟ میں نے پوچھا۔ بولیں۔ بنیادی ذمہ داری تو سماج اور دانشوروں کی ہے کہ وہ  اس جھوٹ کے خلاف احتجاج اور جدو جہد اختیار کریں۔ لیکن ہم عام لوگوں کو بھی زندگی کی سچی تصویر سے آگاہی حاصل کرنے کو اپنی ذاتی ذمہ داری سمجھنا چاہئے۔ غیر درسی کتابیں،ادب ، خبریں، مذاکرے، گوگل، یوٹیوب، ٹیڈٹاکس،واٹس اپ. یعنی ہروہ دستیاب ذریعہ استعمال کرنا چاہئے جو ہمیں سچ سے قریب کر سکے. درست فیصلے کرنےاور کار آمد زندگی گزارنے کا موقع دے سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے   www.valueversity.com2022-04-1804 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSAMAJI INSAF, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, ARSATHWA INSHA, EPISODE 68SOCIAL JUSTICE, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 68 Sattar Edhi Sahib is an icon of struggle for social justice in Pakistan. A philanthropist, social activist and a noble humanitarian worker. Enjoy the story of how he influenced the young minds thirty five years ago سماجی انصاف، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اڑسٹھواں انشاء، شارق علی کراچی مون سون کی بارش سے بھیگا ہوا تھا۔ میڈیکل کا چوتھا سال اور نائٹ ڈیوٹی۔ ایک لاوارث مریض کی لاش کی تدفین کے لئے ایدھی سینٹر فون کیا تو صرف بیس منٹ بعد وارڈ کے دروازے پر دستک ہوئی۔ متوسط قد، توانا جسم، بھیگا ہوا خاکی شلوار قمیض اور داڑھی پر چمکتے بارش کے قطرے۔ میں ستار ایدھی کہہ کر ہاتھ بڑھایا تو شدت احترام سے میرے نوجوان کپکپاتے ہاتھوں  نے ان کا استقبال کیا۔ کاروائی میں ہاتھ بٹایا تو خوش ہو گئے اور شاباشی دی۔ پھر میت ایمبولینس میں رکھ کر یہ جاوہ جا۔ یہ میری ایدھی صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ انکل پینتیس سال پہلے کے ایدھی سینٹر کو یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ آئیڈیا تمہاری آنٹی کا تھا جن سے ان دنوں صرف دوستی تھی کوئی رشتہ نہیں۔ کالج میں ملتے تو بہت سی باتیں ہوتیں۔ دونوں آئیڈیالسٹک اور سماجی انصاف کا خواب دیکھنے والے۔ شاید یہی دوستی کی وجہ بھی تھی۔ ایدھی صاحب ہمارے ہیرو تھے۔ وہ ان لوگوں کی آواز تھے جن کی کوئی آواز نہ تھی۔ بے آسرا  لوگوں کی محبت میں سرشار اور ذاتی زندگی قربان کر دینے والے۔ چھٹیاں آئیں تو ہم دونوں ایک ہفتہ کے لئے کھارادر سینٹر میں رضا کاربن گئے۔ مقررہ دن تمہاری آنٹی مجھ سے پہلے پہنچ کر سینٹر کی پہلی منزل پر بلقیس ایدھی کی ٹیم کے ساتھ زچہ و بچہ کی خدمت والے حصے میں مصروف ہو گئیں۔ میں گنجان گلیوں سے گزر کر کھارادرسینٹر پہنچا تو معمولی سی عمارت کی سیڑھیوں کے کنارے خالی جھولے رکھے دکھائی دئے جن میں لوگ بے آسرا بچے چھوڑ جاتے تھے۔ کسی سوال جواب کے بغیر۔ ساتھ کی دیوار پر گتے کے لٹکتے ٹکڑے پر لکھا تھا مولا نا موجود ہےگا۔ مجھے گراونڈ فلور میں کلینک نما کمرے میں دوسرے رضاکاروں کے ساتھ کام کرنے کی ذمہ داری ملی۔ بڑی سی میز پر ڈونیشن کی دوائیوں کا ڈھیر تھا اور میز کے چار کونوں میں چار کرسیوں پر رضا کارڈاکٹر موجود جن میں میری مرضی اور اہلیت کے برخلاف مجھے بھی شامل کر لیا گیا تھا۔ ہر کرسی کے ساتھ مریض کا اسٹول۔ رش اتنا کہ ایک اٹھتا اور دوسرا آتا۔ تفصیلی تشخیص کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ علامت سن کر جلد از جلد سامنےڈھیر میں سے علامات رفع کرنے کی دوا تلاش کیجئے اور مریض بھگتائے۔ ایک بار قریبی فلیٹ میں کسی کو مرگی کا دورہ پڑا تو مجھے رشتہ دار کے ساتھ علاج کے لئے بھیجنے کی تجویز ہوئی۔ میں نے سہم کر معذرت کرلی۔ ایدھی صاحب انتہائی مصروف۔ ملاقات اور گفتگو رہی لیکن بہت کم۔ کلینک کا نظام سائنسی بنیاد پر بہتر بنانے کا نکتہ نہ ٹھیک طرح سے میں سمجھا سکا۔ نہ ہی وہ سمجھ سکے۔ وہ خلوص نیت اور کھارادر انداز کی خدمت سے مانوس تھے میری پڑھی ہوئی درسی کتابوں سے نہیں۔ سیکھا کیا آپ دونوں نے؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ ایک ہفتہ بعد کالج میں ملے تو دونوں خدمت انسانی کے مظاہرہ سے بہت متاثر تھے۔ اور جان چکے تھے کہ  صرف زکوۃ خیرات اور وسائل کی فراہمی سماجی بے انصافی کا مکمل حل نہیں۔ اصل بات شعور مندی کا فروغ ہے۔ حقیقی سماجی انصاف کی جدوجہد کی سمت ایسے نظام کا قیام  اور اس پر عمل درآمد ہونا چاہئیے جو سب انسانوں کو برابر سمجھتا ہو نسل، جنس، مذہب اور امیری غریبی کا فرق کئے بغیر۔ عام لوگوں کے دل میں خود اپنے لئے حرمت کا احساس  اور شعور مندی ہی سماجی انصاف حاصل کر سکتی ہے۔ انہیں دی گئیں زکوۃ، بھیک اور امداد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے Listen, read, reflect and enjoy!  www.valueversity.com2022-04-1705 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYDABBAYWALON KA SHEHER, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, SATSATHWA INSHA, EPISODE 67DABBAYWALON KA SHEHER ڈبے والوں کا شہر، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستاسٹھواں انشا  CITY OF DABBAYWALAS, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 67  ڈبے والوں کا شہر، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستاسٹھواں انشا، شارق علی  ٢٠٠٧ کی بات ہے پروفیسررسل اور میں ممبئی کے علاقے کولابا میں انڈیا گیٹ کے پاس تاج محل پیلس پہنچے تو استقبال یوں ہوا جیسے ہم کوئی مہاراجہ ہوں. محل نما عمارت کے ساتھ لگا اونچا رہائشی ٹاور . گویا دومختلف زمانوں کے طرز تعمیر ایک ساتھ . انکل پٹیل ممبئی کو یاد کر رہے تھے. بولے. اردلی نے سامان کمرے میں پہنچایا اور وہیں چیک ان کاروائی کامدارشیروانی اور بنارسی سا ڑھی پہنے اسٹاف نے ویلکم جوس پلاتے ہوۓ مکمل  کی. سجاوٹ جیسے کوئی میوزیم ہو . راہداریوں تک میں نادر فرنیچر اور پینٹنگز. اس قیام کے اخراجات پروفیسرکے میزبانوں کے ذمے تھے . ہم کیونکہ  وفد میں شامل تھے تو ہماری بھی موج. ریستوران میں کھڑکی کے قریب ناشتے کے لئے بیٹھے تو سمندر کا نظارہ جیسے کسی بحری جہاز سے. کچھ وقت پول کے کنارے پڑے شاہانہ جھولے پر ہلکورے لیتے اور یوگا پارلر میں بھی گزارا. وہی تاج نا جو 2008میں دہشت گردی کا نشانہ بنا تھا؟ میں نے کہا۔ بولے۔ بہت دکھ ہوا تھا ہمیں خبر سن کر۔ یوں سمجھو جیسے ممکنہ محبت میں دراڑ سی پڑ جائے ۔ دادا جی بولے۔ کہتے ہیں جمسیتجی ٹاٹا کو سفید فام واٹسن ہوٹل نے کمرہ دینے سے انکار کیا تو انہوں نے 1903 میں یہ ہوٹل تعمیر کیا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم میں اسے چھ سو بستروں کا ہسپتال بنا دیا گیا تھا۔ یانی آپا بولیں کبھی نہ سونے والا ممبئی غریب اور امیر سب کا شہر ہے۔ تاج پیلس اورمکیش امبانی کا ایک بلین کا گھر بھی یہیں اور دھاراوی کی جھگیوں میں اچھی زندگی گزارنے کے سسکتے خواب بھی۔ سلم کن آبادیوں کو کہتے ہیں دادا جی؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ زندگی کی وہ دردناک حقیقت ممدو جو ایسی جگہ سانسیں لیتی ہو جہاں انسانی رہائشی معیار کے مطابق زندگی ممکن ہی نہیں ہے۔ بقول جون  ایلیا۔ جو گزاری نہ جا سکی ہم سے، ہم نے وہ زندگی گزاری ہے۔ انکل نے کہا۔ یہ سچ ہے کہ تاج ممبئی کی اصل تصویر نہیں۔ چلتے پھرتے عام لوگ اور سائیکلیں چلاتے ڈبے والے اس کے صحیح ترجمان ہیں۔ گھروں سے دفتروں تک کھانا پہچانے کا خود کار دیسی نظام ہیں یہ ڈبے والے۔ باعزت اور منظم محنت اور رزق حلال کی علامت .کوئی دو لاکھ کھانے کے ڈبے پانچ ہزار ڈبے والوں کےہاتھوں ادھر سے ادھر روز پہنچتے ہیں۔ پہلی ریل 1925 میں چلی تھی یہاں۔ بعض ٹرینیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اسی زمانے کی ہیں۔ دفتری وقت ہوا تو کھوے سے کھوا چھلنے کا مطلب سمجھ میں آیا۔ کراچی کی طرح جنت اور جہنم ایک ساتھ بستے ہیں ممبئی میں بھی ۔ ایک رخ تاج پیلس تو دوسرا جھونپڑ پٹیوں میں حاجت رفع کرنے کے ناکافی انتظامات۔ نتیجہ، جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر۔ میں نے موضوع بدلنا چاہا اور کہا۔ ہندی فلموں کی سبزی منڈی بولی ووڈ کا بھی تو ذکر کیجئے۔ انکل ہنس کر بولے پھر کسی اور وقت مولانا۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-1604 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYGLASGOW SAY DUBLIN, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, CHIYASATHWA INSHA, EPISODE 65GLASGOW SAY DUBLIN گلاسگو سے ڈبلن، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چھیاسٹھواں انشا  Journey starts from the major mainline rail terminus in Glasgow, Scotland and passing through Belfast, takes us to the city of Bernard Shaw, James Joyce and Oscar Wilde. Happy listening! گلاسگو سے ڈبلن، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چھیاسٹھواں انشا، شارق علی ٹرین کونولی اسٹیشن پہنچنے والی تھی. مسلسل سفر کرتے دس گھنٹے گزر چکے تھے۔ طالبِ علمی کا کنگلا زمانہ۔ سستا ٹکٹ، اسی لئے تھکن قبول۔ انکل پٹیل اسکاٹ لینڈ سے ڈبلن تک کا سفر یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ شام ڈھلے گلاسگو سینٹرل اسٹیشن سے ٹرین پکڑی۔ ایک سو چالیس سال پرانے اس اسٹیشن کی عمارت قابل دید ہے۔ شاہکار فولادی کام سے تیار شدہ کشادہ کنکورس۔ سات اونچے ستونوں پر قائم گنبد نما چھت کے نیچے پلیٹ فارم پر آتی جاتیں ٹرینوں کی چہل پہل، ٹکٹ گھر، ریستوران ، دوکانیں اور سفری اعلانات کا شور ۔ ٹرین اسکاٹ لینڈ  کے مغربی ساحلی قصبے ایر پر رکی  تو گاڑی بدل کر اسٹرانرار پہنچا۔ یہاں زمینی سفر ختم اور پی اینڈ او نامی کمپنی کی فیری میں بیٹھ کر سمندر عبور کیا۔ فیری میں سہولتیں مسافر بحری جہاز جیسی۔ ہچکولے لیتے ریسٹورینٹ میں فش اور چپس کھایا۔ عرشہ پر کھڑے ہو کر تیز رفتار فیری کے پیچھے بننے والی پانی کی سڑک کو چاندنی میں چمکتے اور ارد گرد کی لہروں میں گم ہوتے دیکھتے بیلفاسٹ پہنچے۔ کوئی ہنگامہ تو نہیں تھا وہاں؟ میں نے پوچھا. بولے۔ امن تو تھا لیکن فضا میں سیاسی تنائو کی کیفیت موجود۔ خاصا قدیم شہر ہے۔ نواح  میں کانسی کے دور کے آثار بھی ہیں. بحری جہاز ٹائٹینک بیلفاسٹ ہی میں تیار کیا گیا تھا. انیسویں صدی کے آخر میں کیتھولک روزگار کی تلاش میں اس پروٹسٹنٹ شہر میں آئے تھے. تب ہی سے فرقہ ورانہ کشیدگی جس کی بنیاد معیشت ہے جاری ہے. بیلفاسٹ سے پکڑی ٹرین ڈبلن کے کونولی سٹیشن پر آ کر رکی. اندر سے جدید سٹیشن کی سہولت اور بیرونی منظر اطالوی طرز کی شاندار رینیسیاں عمارت کا. ڈبلن ایک ہنستا بستا شہر ہے. دریا لفی بیچ سے گزرتا ہے اور اس پر قائم اوکونیل برج  اپنی چوڑائی اور لمبائی ایک سی ہونے کے باعث پورے یورپ میں منفرد ہے. اٹھارویں صدی میں یہ صرف رسیوں سے بنا پل تھا، پھر لکڑی اور ١٨٦٣ میں کنکریٹ سے تعمیر ہوا جو اب تک قائم ہے. او کونیل سٹریٹ سے گزر کر ٹرنٹی کالج اور پھر گرافٹن سٹریٹ کی سیر کی جائے تو شہر اور باسیوں کے مزاج سے سرسری تعارف ہو جاتا ہے. نوبل انعام یافتہ ادیب جارج برنارڈ شا ، یولیسس لکھنے والا جیمز جوائس اور آسکر وائلڈ اسی شہر کے باسی تھے. فٹ بال اور میخانوں کے دیوانے ہیں یہاں کے لوگ. بریزن ہیڈ نامی پب جو ١١٩٨ میں قائم ہوا پورے آئر لینڈ کا سب سے قدیم میخانہ ہے . ہمیں تو ٹرنٹی کالج  پسند  آیا. تعمیر ١٥٩٢ میں شہر سے با ہر ہوئی تھی لیکن شہر یوں پھیلا کہ اب یہ بالکل قلب میں ہے. کچھ آکسفورڈ اور کیمبرج کا سا انداز لیکن عاجزی کے ساتھ. پتھروں سے بنی قدیم عمارتیں اور دل نشین سبزہ زار.........جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-1504 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYKUNHAAR KAY SANG, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, PENSATHWA INSHA, EPISODE 65KUNHAAR KAY SANG کنہار کے سنگ ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پینسٹھواں انشاء  Icy waters from Jheel Saif ul Mulook feed River Kunhar that passes through the Naran valley down to Mansehra. A journey that witnesses the richness of natural beauty and poverty of people کنہار کے سنگ ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پینسٹھواں انشاء، شارق علی مانسہرہ سے پھل لئے گئے۔ جیپ روانہ ہوئی تو گل خان ڈرائیور نے تسلی دی۔ صائب بیس سال ادھر جیپ چلایا۔ آپ تھوڑا آرام لو۔ دادا جی وادی کاغان کو یاد کر رہے تھے۔ بوے۔ کوئی ستر میل کا سفر ہوگا۔ پہاڑی رستہ، دریائے کنہار کبھی ساتھ کبھی اوجھل۔ ناران قریب آیا تو منظر بے حد حسین ہو گیا۔ گلیشیر عبور کرتے تو پگھلتے پانی کی جل ترنگ سنائی دیتی اور یخ ہوا کے جھونکے بدن کو چھوتے۔ بارش ہوئی تو سبزہ زار، جنگل، ڈھلانیں، اور چھوٹی چھوٹی ندیوں کو جدا کرتے سبزے سے ڈھکے جزیرے نہا کر تر و تازہ ہو گئے۔ دھوپ نکلی تو پوری وادی جنت نظیر۔ کھانے کے لئے ندی کنارے ایک ڈھابےپر رکے۔ چھوٹی سی اتھلی ندی، تہہ میں گول پتھر اور تیز بہتے پانی میں ڈلی چارپائیاں۔ گھڑی بھر پاؤں پانی میں ڈالے تو سن۔ پاؤں نکالے اور  پیپسی ڈال دی۔ تلی ہوئی ٹراوٹ مچھلی، آلو پالک کا ساگ اور گرم نان. لطف آگیا۔ ناران پہنچ کر پی ٹی ڈی سی کے موٹل میں قیام کیا۔ دریا کے بالکل ساتھ ۔ سمندر سے ڈھائی کلو میٹرکی اونچائی پر ہے ناران۔ رات ہوئی تو تاروں بھرا آسمان اور بہتے دریا کی آواز۔ لوگ کیسے ہیں وہاں کے؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ صحتمند، خوش مزاج، شلوار قمیض اور پشاوری جوتی پہنے، ہندکواور اردو بولتے ہوے۔  زیادہ ترروزگار سیاحت سے جڑا ہوا، کچھ دیحقان اور چرواہے بھی۔ کمائی صرف گرمیوں میں۔ ورنہ برف سے ڈھکے پہاڑ اورغربت کا اندھیرا۔ بس ایک پرائمری اسکول نظر سے گزرا۔ تعلیم کے مواقع نہ ہونے کے برابر۔ دنیا میں غربت کیوں ہوتی ہےدادا جی؟ میں نے سوچ میں ڈوبی آواز میںپوچھا۔ بولے کڑوا سچ یہ ہے کے دنیا کے 4.4 بلین لوگ غربت کا شکار ہیں اور سب سے زیادہ غریب جنوبی ایشیاء میں۔ وسائل کی غیرمساوی تقسیم۔ عالمی مالی اداروں کے بدنیت قرضے اور تجارتی قوانین کے ذریعے ترقی پزیر ممالک کا استحصال ۔ پھر جنگوں اور سیاسی بحران کے نتیجے میں ہجرت اور بے روزگاری۔ نتیجہ نا کافی غذا، رہائشی بد حالی، تعلیم اور صحت سے محرومی. جھیل سیف الملوک گئے آپ؟ میں نے دکھی ہو کر بات بدلی۔ بولے۔ اگلی صبح پہلے تو آملیٹ، پراٹھوں اور چائے کا بھرپور ناشتہ کیا۔ جیپ پائن کے درختوں میں گھری چڑہای چڑھتی سڑک پر روانہ ہوئی۔ ہر سال کی بارش اور لینڈ سلائیڈ سے یہ سڑک کچی پکی تھی۔ ایک طرف چٹانی دیوار. دوسری طرف گہری کھائی میں دور کہیں بہتا دریا۔ ہر موڑ پر خدا یاد آتا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعددوکانیں، ہوٹل، اور پھر جھیل نظر آئی۔ باقی سفر پیدل طے کیا۔ جھیل کے کنارے گھاس کے میدان میں دریاں بچھیں۔ مبہوت کر دینے والا منظر تھا۔ یخ پانی کی جھیل کے آئینہ میں ملکہ پربت  کا عکس اور سامنے بھی وہی۔ دریائےِ کنہار اسی جھیل سے نکلتا ہے جو ناران سے گزر کر مانسہرہ تک جاتا ہے۔ ہم تونہیں گئے کوئی سات سو میٹر اوپر آنسو جھیل بھی ہے ملکہ پر بت کے کنارے۔ میں غربت کے موضوع پر پلٹا اور بولا . وہاں حسن کے ساتھ خوشحالی بھی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا. یانی آپا نے کہا. ہمیں تفریق اور سرحدوں سے آزاد ایک ایسی دنیا، ایک ایسے عالمی نظام کی ضرورت ہے ممدو ۔ جو سب انسانوں کو مساوی حقوق دے سکتا ہو۔ انصاف پر قائم ایسی دنیا کی سمت جدوجہد سے کم کوئی اور راستہ قبول کر لینا بزدلی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے www.valueversity.com2022-04-1405 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYGALVESTON MAIN SUPERMOON, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERAL, INSHAY SERIAL, CHONSATHWA INSHA, EPISODE 64GALVESTON MAIN SUPERMOON گیلوسٹن میں سپرمون، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چونسٹھواں انشاء  Enjoy the view of supermoon from the US coastal city in this story. Galveston, an island, used to be the home for pirates such as Jean Lafitte گیلوسٹن میں سپرمون، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چونسٹھواں انشاء، شارق علی لیگ سٹی سے نکل کر ہائی وے فورٹی فائو پر ڈرائیو کے دوران باتوں میں اتنا مصروف رہے کہ کب سمندر عبور کیا ٹھیک سے یاد نہیں۔ آج بھی یقین نہیں آتا کہ گیلوسٹن ٹیکسس کا شہرنہیں جزیرہ ہے۔ یا نی آپا امریکہ کا مطالعاتی دورہ یاد کر رہی تھیں۔ بولیں۔ پام کے درختوں سے جھانکتی وکٹورین طرز کی تجارتی عمارتیں جس کثرت سے وہاں ہیں، پورے امریکہ میں کہیں اور نہیں۔ ہیوسٹن میں گرمی کا احساس تھا۔ شام ڈھلےگیلوسٹن پہنچے تو سمندری ہوا کی تازگی نے استقبال کیا۔ میزبان نے سمندر کے ساتھ دور تک چلتی چلی جاتی سڑک کےکنارے گاڑی پارک کی۔ ایک طرف دکانیں،ریسٹورنٹ اور دیگر عمارتیں۔ دوسری طرف سمندر کا کنارہ اور سیاحوں کی چہل پہل سے آباد فٹ پاتھ. سائیکلیں، اسکیٹ بورڈز، بھاگتے ، چہل قدمی کرتے اور کچھ سیاح ویل چیئر پر بھی۔ کہیں کہیں بیٹھے یا اڑتے دکھائی دیتے برفانی موسموں سے مفرور پرندے۔ کیریبین، کناری آئی لینڈ اور انگلستان کو جاتے لگژری کروز کچھ دن یہاں بھی قیام کرتے ہیں اور یوںبھانت بھانت کے لوگوں کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ ایک بڑے سے کمپاونڈ میں سائیکل رکشاء کھڑے دیکھے. دو لوگ آگے بیٹھ کر پیڈل چلایںاور پیچھے دو مسافر۔ رکشے کرائے پر لئے اور خوب سیر کی گئی ۔ ستائیس میل لمبےاور ڈھائی میل چوڑے  اس جزیرہ میں میلوں تک پھیلا ساحل ہے۔ مقامی آبادی صرف پچاس ہزار۔ تھینکس گیونگ یا کرسمس ہو تو سیاح کئی  لاکھ ۔ اسی لئے اسے جشن کا جزیرہ بھی کہتے ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز میں ایک بحری قزاق ژاں لفیٹے  نے اسے اپنےساتھیوں سمیت ٹھکانے کے طور پر آباد کیا تھا۔ وہ آتے جاتے تجارتی بحری جہازوں کو لوٹ کر سامان گیلوسٹن میں لے آتے۔ پھر یہ سامان ٹیکساس کے دیگر شہروں میں اسمگل کیا جاتا۔ ہسپانوی جہاز کو لوٹنے کی ایسی ہی ایک مہم میں لیفیٹے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ قزاقوںکی طرح اس جزیرے نے پیلے بخار کی وبا، گاہ بگاہےشدید سمندری طوفان اور اٹھارہ سو پچانوے کی تباہ کن آگ جیسی بہت سی سختیاں جھیلی ہیں۔ رات اپنے شباب کو پہنچی تو ہم نے زندگی میں پہلی بار ساحل کے چٹانی پتھروں پر بیٹھ کر سپرمون کا نظارہ کیا۔ چاند کا اپنے مدار میں عام دنوں کے مقابلہ میں زمین کے سب سے نزدیک آجانے اور بے حد روشن اور بڑے دکھائی دینے کو سپر مون کہتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ گیلوسٹن میں 10 اگست 2014 کی وہ رات سپر مون کی رات تھی۔ بادلوں سے پاک ستاروں بھرا آسمان، حد نظر تک دکھائی دیتی سمندر کی لہریں اور آسمان پر بے حد روشن، دلکش اور چاندنی بکھیرتا مہتاب جو عام دنوں کے مقابلہ میں اس رات زمین سے پچاس ہزار کلو میٹر نزدیک تھا۔ وہ منظر بھلائے نہیں بھولتا ممدو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔   www.valueversity.com2022-04-1304 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYRAAT KAY MUSAFIR, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, TARAYSTHWA INSHA, EPISODE 63RAAT KAY MUSAFIR رات کے مسافر، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، تریسٹھواں انشا  A large number of female Green Turtle comes out of Indian ocean to make nests and lay eggs at Sandspit Beach of Karachi each year. A journey of life and death begins in the darkness of night رات کے مسافر، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، تریسٹھواں انشا، شارق علی رات کا پچھلا پہر تھا. سینڈس پٹ کے ریتیلے ساحل میں جا بجا دھنسے ملگجے بیضوی انڈوں میں سے کچھ تڑ خے ہوۓ تھے اور ان میں سے نکلتے، زندگی کی ابتدا کرتے، مینڈکوں جتنے ننھے کچھوے. تاریک ساحل پر روشن لہروں کو منزل بناۓ، اپنے قبیلے اور اپنے ماحول کی سمت آگے بڑھتے، اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوۓ رات کے مسافر. یہ تھی ہمارے بچپن میں سبز کچھووں سے پہلی ملاقات. انکل پٹیل کراچی کے ساحلوں کو یاد کر رہے تھے. بولے. کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک بڑی تعداد میں یہ نوزائدہ کچھوے قریبی سڑک سے گزرتی گاڑیوں کی روشنییوںاور قریبی گاؤں کی لالٹینوں کو منزل سمجھ کر آوارہ کتوں کی غذا، یا گاڑیوں کے پہیوں تلے آ کر اور آبادیوں کی روز مرہ سنگ دلی کا شکار ہو جاتے ہیں. کچھ اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر منافع کی سولی پر لٹک جاتے ہیں.یانی آپا بولیں. مجھے تو کچھ ایسی ہی ملتی جلتی کہانی کراچی کے عوام کی بھی لگتی ہے. روشنیوں کی سمت سفر کرنے کی آرزو میں مجرموں کو رہبر سمجھنے والے انگنت معصوم لوگ بھی تو مہلک انجام کو پہنچتے ہیں. دادا جی بولے. یہ ننھے سبز کچھوے سمندری گھاس اور الجی کی غذا پر زندہ رہتے ہیں اور آخر کار سمندری دنیا کے سب سے لمبے اور وزنی کچھوے بن جاتے ہیں. اتھلے پانی ان کی رہائش گاہیں ہیں. ہجرت کے سفر پر ہوں تو چالیس کلو میٹر روز کی مسافت معمول کی بات ہے. پندرہ سے پچاس سال تک کی مادایںافزائش نسل کے لئے قریبی ساحلوں کا رخ کرتی ہیں اور کسی ایک مقام پر ایک وقت میں تقریباً سو انڈے دیتی ہیں. جانے کیوں کراچی کے ساحل جیسے ہاکس بے اور سینڈس پٹ پر جولائی سے دسمبر کے درمیان  ہر سال ہزاروں سبز کچھوے افزائش نسل کے لئے آتے ہیں. جنگلی حیات کے تحفظ کا ادارہ انڈوں کی حفاظت اور تحقیق کی کوششیں بھی کرتا ہے. ٹیگ ہوۓ کراچی کے کچھوے ہندوستان، ایران اور اریٹریا تک میں پائے گئے ہیں. کراچی کے ساحلوں کے کچھ اور مزے بھی تو بتائے؟ میں نے کہا. انکل بولے. بچپن میں اکثر دوستوں یا گھر والوں کے ساتھ جانا ہوتا. حکومتی انتظامات تو نہ ہونے کے برابر تھے. کھانے اور ضروررت کی چیزیں ساتھ لے کر جانا پڑ تیں. ساحل کے ساتھ دور تک چلتی چلی جاتی پتلی سی سڑک . کوئی اچھا مقام نظر آتا تو دوست یار وہیں ڈیرہ ڈال دیتے. دو پہر میں لوگوں کا رش بڑھنے لگتا لیکن ساحل اتنا وسیع تھا کہ ہر ایک کو جگہ میسّرآ جاتی. گھر والوں کا ساتھ ہوتا تو آرام دہ ہٹ کے سامنے مخصوص ریتیلے ساحل کا انتظام موجود. کئی دفعہ رات بھر قیام بھی کیا. سمندر اورسورج کی آنکھ مچولی میں کئی رنگ بدلتے دیکھتے . صحیح لطف طلوع یا غروب آفتاب کے وقت آتا. لہروں کے ساتھ ساتھ لمبی سیریں کی جاتیں. گھر سے لا ۓ لذیز پکوان اور ٹینس بال کرکٹ کی چیخ پکار کا لطف اٹھایا جاتا. اور کبھی خاموشی سے آنکھیں بند کر کے ریت پر لیٹ جاتے. علی الصباح پر سکون ٹہل کے دوران جال نکالتے ماہی گیروں کو دیکھتے. آتی جاتی لہروں کا فرحت بخش سرگم سنتے. نرم ہوا کی جیسی تازگی ہم نے کراچی میں پائی ممدو، ویسی کہیں اور نہیں ........جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-1204 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYCOLLEGE KA YAAR, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, BASATHWA INSHA, EPISODE 62COLLEGE KA YAAR کالج کا یار ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل باسٹھواں انشاء  Located in the heart of old Karachi, D J Science college is perhaps the most attractive colonial structure named after its benefactor Dayaram Jethmal. A journey of open mindedness begins here for the students کالج  کا یار ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل باسٹھواں انشاء، شارق علی کالج پہنچے تو آزاد پنچھیوں جیسی زندگی شروع کی۔ حاضری لگتی تو تھی لیکن اسکول جیسی سختیاں کہاں۔ کلاس میں کم، زیادہ وقت برنس روڈ کےچٹخاروں میں گزرتا۔ انکل ترنگ میں تھے۔ میری اور یانی آپا کی تربیت کا خیال بھلا کرزمانہ طالب علمی کا سچ بیان کر رہے تھے۔ بولے۔ کراچی کےمشہور پاکستان چوک سے بائیں ہاتھ مڑتے ہی ڈی جے سائنس کالج کی شاندار عمارت ہے۔ بنیاد تو 1882 میں وائیسرائی لا رڈ ڈفرن نے رکھی لیکن قائم کرنے کا سہرا 1887 میں ایک امیر اورعلم دوست ہندو تاجر دا یارام جیتھمل کے سر ہے۔ آج بھی یہ ان ہی کے نام سے منسوب ہے۔ دادا جی بولے۔ عمارت کا ڈیزائن جیمس اسٹریچن نے بنایا تھا جو کراچی کا میونسپل انجینئیر تھا۔ اطالوی رینیساں   طرز میں بنی پیلے سینڈ سٹون سے تعمیر شدہ یہ عمارت قابل دید ہے۔ پورٹیکو کے ساتھ بنا اونچا ٹاور ہے جس کی چھت پر بڑا سا گنبد اور اس کے سر پر تاج کی طرح رکھی ہوئی لالٹین۔ ٹاورکی اونچائی ایک سو اکیس فٹ اوردائیں با ئیں دو چھوٹے لیکن پر کشش گنبد اور بھی۔ تعمیر کے وقت بیلجیئم سے د رآمد شدہ موزئیک ٹائیلوں سے فرش کو سجایا گیا تھا اور سیڑ ھیوں کے ساتھ لگا لوہے کا جنگلا اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو سے منگوایا گیا تھا۔ شاید کراچی میں برطانوی دور کی یہ سب سے پر کشش عمارت ہے ۔ کالج میں گہرا دوست کون تھا آپکا؟ میں نے بات بدلی۔ انکل بولے۔ دوست تو بہت رہے زندگی بھر۔ لیکن جوجی اب تک یاد آتا ہے۔ سب سے الگ تھلگ، دبلا پتلا، سنہرے فریم کے گول چشمے سے جھانکتی ذہین آنکھیں اور دراز بال۔ بہت شرمیلا۔ پہل مجھے ہی کرنا پڑی تھی۔ جلد ہی دونوں جگر بن گئے۔ ہر موضوع پربات ہوتی۔ مذہبی تو میں بھی کبھی نہیں رہا لیکن محرم کی حلیم، دیوالی کی مٹھائی اور کرسمس کا کیک سب ہی اچھا لگتا تھا۔ ایسے ہی کسی خوش ذائقہ لمحہ میں میں نے تمام مذاہب کو سچا قرار دیا تو بولا۔ زندگی، موت اور کائنات کے بارے میں بالکل مختلف وضاحتیں اور دعوے کرتے یہ سب ایک ساتھ کیسے سچے ہو سکتے ہیں۔ مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ پھر وہ سائینس پر قائل کرتا اور کہتا۔ نیوٹن کے قوانین لے لو۔ ایسا کائناتی سچ جس پر دنیا کا نظام بھی قائم  ہے اورانسانی عقل بھی متفق۔ پھر سائنس میں لچک دیکھو۔ ممکن ہے آنے والا کل آج کی وضاحتوں کو رد کر دے تو کوئی بات نہیں۔ تلاش کا سفر جاری رہنا چاہئے۔ جبکہ عقیدوں میں تبدیلی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سوچ کے بڑھنے کا امکان زیرو۔ سچ کی تلاش ختم شد۔. کبھی بہتر معاشرے کی بحث چھڑتی تو کہتا۔ عقلی قوانین پرہی سب کا اتفاق ممکن ہے۔ عقیدہ فرد کا ذاتی معاملہ ہو سکتا ہے اجتماعی اصول نہیں۔ مسجد، مندر، چرچ وغیرہ میں عبادت کی آزادی سب کو ہونی چاہئیے۔ لیکن معاشرتی قوانین انسانی عقل کی بنیاد پر اور ان پر عملداری سب کی ذمہ داری ہونی چاہیے ۔ پھر تھا مس جیفرسن کا قانون یاد دلاتا کہ حکومتی معاملات اور مذہب بالکل جدا گانا ہونے چاہئیے۔ کالج کا یار میرا جگر جوجی اب بھی یاد آتا ہے اکثر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-1104 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYINDORE MAIN KHAPA, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, IKSATHWA INSHA, EPISODE 61INDORE MAIN KHAPA اندورمیں کھاپا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکسٹھواں انشا STREET FOOD OF INDORE, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 61 Day time Sarafa, a jewellery market, gets transformed into a pedestrian food street at night in Indore city of Madhya Pradesh. Enjoy a glimpse of food capital of India اندورمیں کھاپا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکسٹھواں انشا، شارق علی ممبئی کی فلائٹ سے اترے توسامنے چھوٹا سا ائیرپورٹ. ملا جلا شہری دیہاتی ماحول اور کاروائی آہستہ خرام . میزبان نےدور سے ہاتھ ہلایا. ہوٹل کو چلے تو راستے بھر اسی شہر کی لتا منگیشکر اور کرسچین کالج کے پڑھے کشورکمار کے گانے سننے کو ملے . انکل انڈیا کے شہر اندورمیں اپنا قیام یاد کر رہے تھے. بولے. ہوٹل سے پہلے شہر کا چکر لگایا. وہی سردیوں کی خوشگوار کراچی جیسی گنگناتی دھوپ. کہیں کہیں سڑک کنارے گل موہرکے شوخ پھولوں سے لدے درخت. وہی ٹریفک کا طوفان بد تمیزی اور جام کی صورت میں کسی بھی راہگیرکا ٹریفک پولیس کی ذمے داری سنبھال لینا. آٹورکشا بھی بہتیرے. بل بورڈ پر لگے ٹیوشن سنٹراور کمپیوٹر کورس کے اشتہارات جا بجا . یہاں کی ابھرتی سافٹ ویئر انڈسٹری شاید انہی پر حدّت نوجوان جذبوں کا ثمر ہے. سا یاجی ہوٹل  پہنچے تو اعلی درجے کی سات منزلہ عمارت سامنے. آراستہ کمرے  میں سامان رکھا. بھوک بے چین کئیے دیتی تھی. ریستوران میں گئے تو شمالی ہند کی روایتی سجاوٹ اور لذیز کھانا. ایک طرف غزل کی گائیکی کا بھی انتظام . میزبان سے فرمائش کی کہ کل کا دن گلی کوچوں کی چہل پہل اور عام لوگوں کے اندوری لب و لہجے سے شناسائی میں گزارا جائے . لال باغ پیلس کا دروازہ دیکھا آپ نے؟ یانی آپا نے پوچھا. انکل بولے. بکنگھم پیلس کے جڑواں گیٹ کو دیکھنے کا شوق تو ہمیں بھی بہت تھا لیکن فرصت نہ مل سکی. اگلے دن ہند کی ذائقہ راجدھانی کی گلیوں میں خوب گھومے. آٹو رکشے والا آنند بہت سادہ  نہایت نرم گو لیکن سیاسی اونچ نیچ سمجھنے والا . لئے لئے پھرا اور خوب باتیں ہوئیں. چھپن دکان میں قسمہ قسم کھانوں کی چھپن دکانیں ہیں ایک ساتھ. پہلے تو پوہا جلیبی کا ناشتہ کیا. پھر گلیوں میں شاپنگ سے تھک کر بے حال ہوئے تو ایگ بینجو کھایا. گرم چیرے ہوۓ بن میں لال مرچوں والا آملیٹ اور چٹنی ایسی کہ آدمی سوں سوں کرتا رہ جائے  . ساوریا کی سابو دانہ کھچڑی اور لکشمی نارائن کا بادامی دودھ بھی لاجواب. رات ہوتے ہی رجواڑہ میں صرافہ کی دکانیں بند ہوتی ہیں اوران ہی کے سامنے ذائقوں کا رتجگا شرو ع . پنیر مٹر اور آلو بھرے پراٹھوں کی مہک دل تھام لیتی ہے. آخر میں پیٹھا پان. کاجو، گلقند، اور پتلے سے پیٹھے کے ٹکڑے کے ساتھ. پان کیا مٹھای سمجھو. میں جھلس کر بولا. دادا جی کہتے ہیں بے تحاشا کھاپا اور بد پرہیزی کوئی اچھی بات نہیں انکل؟ پٹاخ سے بولے. بد پرہیزی کیسی ممدو میاں . پانی جب بھی پیا امپورٹڈ اور بوتل بند........جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-1004 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSHIDDAT PASAND, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, SATHWA INSHA, EPISODE 60SHIDDAT PASAND شدّت پسند، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، ساٹھواں انشا EXTREMIST, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 60 Is it justified to violate common moral standards in the name of any political or religious view? Mamdu ask and Dada Ji explains in this story شدّت پسند، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، ساٹھواں انشا، شارق علی نیرنگ آ باد میں مشتعل ہجوم نے پہلے توچرچ پر حملہ کیا، پھر اس کے پیچھے کرسچن جھونپریاں کو جلا کر راکھ کر دیا. متاثرین خیمہ کیمپ میں منتقل ہوۓ تو عارضی ہسپتال میں یا نی آپا، ان کے دوست اورمیں دن بھر طبّی امداد میں مصروف رہے. شام کو گھر لوٹے تو دادا جی اور انکل لان کی کرسیوں پر چائے کا انتظام کئیے جیسے ہمارے ہی منتظر تھے. میں نے نمکین بسکٹ اٹھاتے ہوۓ پوچھا. کیا شدّت پسند جاہل ہوتے ہیں دادا جی؟ بولے. ضروری نہیں ہے. ایسے تعلیم یافتہ لوگ بھی جو حتمی اور واحد سچ کے شیدائی ہوں. خود کو ہم خیالوں سمیت کسی اعلی مشن پر فائز سمجھ کے عقل سے ہاتھ دھو بیٹھیں. کائناتی اسرار کی من گھڑت وضاحتوں کو سوال کیے یا سوچے سمجھےبغیر مان لیں یا عظمت حاصل کرنے کے لئے مذہبی یا سیاسی شناخت کی شدید ضرورت محسوس کرتے ہوں تو وہ سب شدّت پسند کہلائیں گے.نوجوانی میں شناخت کی تلاش کیونکہ شدید ہوتی ہے اس لئے شدّت پسندی بھی. برداشت کا رویہ کمزوری محسوس ہوتا ہے ایسے نوجوانوں کو. انکل بولے. ایسے گروہ ہر دور اور ہر معاشرے  میں موجود رہے ہیں. چاہے سفید فام برتری کی حامی امریکا کی کلوکلکس کلان یا کے  کے کے ہو جو آنکھوں اور منہ کے گرد سوراخ والے سفید چوغے پہنے سیاہ فاموں کی لنچنگ یعنی بغیر مقدمے کے پھانسی جیسے گھنائونے جرائم کے لئے بائبل سے جواز تلاش کرتے تھے یا آج کی آئ سس اور مصرمیں ١٩٢٨ میں حسن البنا کی اسلامی براد رھوڈ کی تنظیم ہو جو قرآن اور حدیث کا حوالہ دے کر پوری دنیا پر حکمرانی مسلمانوں کا حق سمجھتے تھے ، بلکل ایک جیسا رویہ رکھتے ہیں. دادا جی بولے. ایسی سوچ عام انسانی اخلاقیات اور سامنے کے صحیح اورغلط کو نہیں مانتی بلکہ  اپنے عقیدے کو الله کا حکم قرار دے کر اس کی پیروی کرتی ہے. دلائل ان کے لئے اہمیت نہیں رکھتے. مثلا  جنس کے موضوع پر تعلیم کی ان کی نظر میں قرآن و حدیث میں گنجائش نہیں. یہ دلیل کے ایسی تعلیم لاکھوں انسانی جانیں بچا سکتی ہے ان کے لئے بے معنی ہے. تو پھر شدّت پسندی کا حل؟ میں نے پوچھا. یانی آپا بولیں. اس کا حل تو وہ ان بنی دنیا ہے ممدو جسکا خواب اور جس کی سمت جدوجہد ہر روشن خیال پر فرض ہے. جغرافیائی سرحدوں اور قومیتوں سے آزاد دنیا. جس کے اسکولوں میں بلا تفریق جنس، طبقے، مذہب، نسل،  رنگ اورقومیت ایسی بنیادی تعلیم دی جاتی ہو جو آفاقی اخلاقی اصولوں کوبنیاد بناۓ، جو تنقیدی طرز فکر اور آزاد ذہن پیدا کر سکے. سوال کرنے کی ہمّت دے سکے. مذہبی یا نسلی شناخت کے بجائے انسانی اور ثقافتی شناخت پر فخر کرنا سکھا سکے........جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-0904 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYHIJR E MUSALSAL, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, UNSATHWA INSHA, EPISODE 59NAZIM HIKMAT, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 59 ہجرمسلسل، دادااوردلدادہ، انشے سیریل، انسٹھواں انشا، شارق علی نیرنگ آباد لائبریری میں جشن فیض تھا. تقریری اور بزبان موسیقی خراج تحسین اور پر جوش اختتامی کورس. لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے. واپسی پر یانی آپا نے کار چلاتے  ہوۓ کہا. کتنی مماثلت ہے فیض اور ناظم حکمت کی زندگی اور فکر میں. یہ ٹکڑا سنو. اے محبوب وطن تم میرا قفس بھی ہو آزادی بھی ، تم میرا بدن ہو، گرم رات میں پھنکتا ہوا بدن، سنہری آنکھوں میں سبز تل والے محبوب کہو ، حسن، عظمت اور کامیابی کی آرزو کا نصیب ہجر مسلسل کیوں ہے؟ مصرعے تو خوب ہیں. لیکن کون تھا ناظم حکمت؟ میں نے پوچھا. بولیں. وہ ١٩٠٢ میں سلطنت عثمانیہ کے ما تحت شہر سالونیکا کےایک علمی گھرانے میں پیدا ہوا. یہ شہر اب یونان میں ہے. بچپن سے شاعری کی اور سترہ سال کی عمر میں پہلی کتاب چھپی . نیول اسکول سے تعلیم پانے کے بعد پہلی جنگ عظیم کے دوران مشرقی ترکی میں استاد رہا. وہ فطرتاً انقلابی تھا. روسی انقلاب کے بعد ١٩٢٢ میں ماسکو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی. ١٩٢٤ میں آزاد ترکی میں اپنے گھر لوٹا تو جلد ہی کمیونسٹ رسالوں میں چھپی تحریروں کی وجہ سے قید کر دیا گیا. کسی طور فرار ہو کر ١٩٢٦ میں دوبارہ ماسکو پھنچا. دو سال بعد ترکی کی حکومت نے معافی دے کر وطن واپسی کی اجازت دی. میک ڈونلڈ  کے ڈرائیو تھرو میں یانی آپا نے گاڑی روکی. کوفی اور فرینچ فرائز لئے گئے اور گفتگو دوبارہ شروع ہوئی. دادا جی بولے. وطن لوٹا تو ہروقت خفیہ پولیس کی نگرانی. اگلے دس میں سے پانچ برسوں میں وہ جھوٹے الزامات کے تحت جیل میں قید رہا. اندر یا باہر، وہ مسلسل لکھتا رہا اور جلد سازی، پروف ریڈنگ، ترجمے اور ڈرامے لکھ کر دال روٹی بھی کماتا رہا. ١٩٢٩ سے ١٩٣٦ تک عالمی بحران کے دنوں میں اس نے نو کتابیں، پانچ مجموعے اور چار طویل نظمیں شایع کیں. انکل نے کوفی کا گھونٹ بھرا اور بولے. پندرھویں صدی میں اناٹولیا کے انقلابی صوفی شیخ بدرالدین کی حکایت سے لے کر عام لوگوں کی مداح سرائی میں بیس ہزار مصرعوں کی طویل نظموں اور مارکسسٹ  ڈراموں تک، اس نے کیا نہیں لکھا. حرف و بیان کی چابک دستی، آزاد نظم کی شروعات اور بے مسل استعاروں کا استعمال ترک ادب میں اسے ایک ممتاز مقام دیتا ہے. یانی آپا بولیں. ترکی میں مسلسل قید و بند اور پابندی سے تنگ آ کر ١٩٥١ میں اس نے وطن کو خیر آباد کہا اور بقیہ عمر مشرقی یورپ اور روس میں اپنے خواب کمیونزم کی حمایت میں گزاری. ١٩٦٣ میں ماسکو میں انتقال کے بعد اسے بے حد پذیرائی ملی. انتہائی پر اعتماد، تصور و خیال اور قوت اظھار سے ما لا مال نا ظم حکمت صرف ترک لوگوں کا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے کچلے ہوۓ عوام کی آرزوؤں اور امنگوں کا نمائندہ ہے. جبرواستبداد کے خلاف ایک طاقتور آواز........جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-0804 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSOFI KI DUNYA, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, ATHANWA INSHA, EPISODE 58SOPHIE`S WORLD, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 58 A Norwegian novel, now a world bestseller, by Jostein Gaarder that takes a teenage girl Sophie on a journey to discover the thinking and history of philosophy. Enjoy! سوفی کی دنیا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اٹھاونواں انشا، شارق علی بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کی عمارت  سے ذرا آگے بائیں ہاتھ کو جاتی سڑک پر مڑتے  اور ذرا آگے جاتے ہی دل کی دھڑکن خوشی سے تیز ہو جاتی. دائیں بائیں گلیوں میں اردو بازار جو تھا اور آج بھی ہے. انکل کراچی میں گزا را بچپن یاد کر رہے تھے. بولے. نوعمری میں یہ گلیاں گویا حیرتوں کا ائیرپورٹ تھیں. ہر ملنے والی کتاب ایک نئی دنیا کے سفر پر لے جاتی. یہیں ویلکم بکس سے سوفی کی دنیا خریدی تھی. ناروے کے پس منظر میں لکھا گیا عالمی شہرت یافتہ ناول. پڑھنا شروع کیا تو رکنا مشکل. یانی آپا بولیں. ناروے آدھی رات کے سورج کا ملک ہے کیونکہ گرمیوں میں اس کے بعض علاقوں میں یا تو سورج ڈوبتا ہی نہیں یا دن کی مسافت بیس گھنٹوں کی ہوتی ہے اور سردیاں اس کے بالکل الٹ. فن لینڈ، سوئیڈن اورروس سے جڑا پچاس لاکھ آبادی کا یہ ملک بجائے خود ایک حیرت کدہ ہے. کہانی کیا ہے سوفی کی دنیا کی؟ میں نے پوچھا. انکل بولے. چودہ سالہ سوفی ایک دن اسکول سے واپسی پردروازے پر لگے میل باکس میں دوچٹھیاں موجود پاتی ہے جن پر دو سوال درج ہیں. تم کون ہو؟ یہ دنیا کہاں سے آئی ہے؟ پھر ان سوالوں کی کھوج سوفی کو ناروے کے گاؤں سے نکال کرزمان و مکان کے ایک ایسے سفر پر لے جاتی ہے جس میں وہ مغربی فلسفے کی تاریخ اور اس کے اہم کرداروں سے روشناس ہوتی ہے. دلچسپ پہیلی در پہیلی کہانی ایک طرف اور سقراط اور سارترے جیسے حقیقی کرداروں کی آمد و رفت اور تعارف دوسری طرف. اور لکھنے والا؟ میں نے پوچھا. یانی آپا بولیں. ناروے کے شہر اوسلو میں پیدا ہونے والا جوسٹین گارڈر لکھاری بھی ہے اور فلسفے کا استاد اور دانشور بھی. بچپن کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے کا فن کوئی اس سے سیکھے. سوفی کی دنیا چون زبانوں میں ترجمہ ہو کر تین کروڑ سے زیادہ کی تعداد میں چھپ چکی ہے. برگن میں اسکول کے بچوں کو فلسفہ پڑھانے والے نے یہ ناول لکھ کر پوری دنیا کو فلسفے اور ادب کے امتزاج کا حسین تحفہ دیا ہے. دادا جی بولے. ناروے برفانی پہاڑوں اور فی اورڈ یعنی طویل اور تنگ آبی گزرگاہیں جن کے دونوں جانب نشیبی پہاڑ ہوتے ہیں اور جو سمندر کے پگھلے گلیشیئرسے بنی وادی میں داخل ہو جانے کی وجہ سے بنتی ہیں، والا ملک ہے. مقامی لوگ سامی کہلاتے ہیں جو دس ہزار برسوں سے ان علاقوں میں رہ رہے ہیں. سامی اپنے رنگ برنگے لباس اور رینڈئیرپالنے کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں. ناروے برفانی جنگلی حیات سے مالا مال ہے . قطبی ریچھ ، بھیڑیے اور لومڑی کے علاوہ بہت سے برفانی پرندے بھی. یانی آپا بولیں. ونٹر اولمپکس میں سب سے زیادہ گولڈ میڈل جیتنے والا ناروے پندرہ میل لمبی دنیا کی سب سے طویل سرنگ میں بنی سڑک کی وجہ سے بھی مشہور ہے. یہاں کی لوک کہانیوں میں ٹرول کا ذکر اکثر ملتا ہے جو غاروں اور گھنے جنگلوں میں بسنے والی بدصورت مخلوق ہے اور جو سورج کی روشنی پڑتے ہی پتھر کی ہو جاتی ہے.........جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-0704 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYRADIO KA JADOO, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, SATANWA INSHA, EPISODE 57Not long ago, radio emerged as a magical invention to entertain and educate people with music, plays and news. Dada Ji commemorate the golden days ریڈیو کا جادو، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستاوانواں انشا، شارق علی آ ئی فون پر دادا جی کو ورلڈ ریڈیو نیٹ ورک کی من پسند نشریات سنوائیں تو بولے. بھئی ممدو. یہ انٹرنیٹ طلسم ہوش ربا سے کم نہیں. ہم بچے تھے تو ریڈیو بھی جادو لگتا تھا. بڑا سا مرفی اونچی تپائی پر دھرا رہتا. ا ماں نے بڑے چاؤ سے کروشیا کا غلاف سیا تھا پھول دار. والد صاحب مقررہ وقت پر کھولتے اور بند کرتے. ہم بچے دور بیٹھے سنتے. انکل بولے . ١٨٩٥ میں ایک اطالوی مارکونی نے بغیر تار کے ٹیلیگرافک میسج  بھیج کر ریڈیو انقلاب کا آغاز کیا تھا لیکن آواز نشر کرنے کا سہرا فیسنڈ ن  کے سر ہے. اس نے ١٩٠٦ میں برنٹ راک سٹیشن میساچوسیٹس سے وایلن پراے مقدس رات کی دھن بجائی اور بائبل سے ایک صفحہ پڑھا تو بندر گاہ پر کھڑے ایک بحری جہاز میں یہ تاریخ  ساز نشریات سنی گئی. پھر ایک برطانوی کمپنی مارکونی کے نام سے قائم ہوئی تو ریڈیو مقبول عام ہوتا چلا گیا. آوازیں، الفاظ اور موسیقی آزاد فضاؤں سے گزر کر اور دیواریں چیر کر دنیا کے ہرکونے میں پھیل گئے. ١٩٢٠ تک ریڈیو خبروں، ڈراموں اور دلچسپ پروگراموں کی صورت یورپ اور امریکا کے عوام کی زندگی کا حصّہ بن گیا. دادا جی بولے. لاہور اور پشاور کے سٹیشن ١٩٣٠ میں قائم ہوۓ تھے. ہمارے بچپن میں ریڈیو صداکار سیلیبریٹیز شمار ہوتے تھے اور فینز کی بوریاں بھر ڈاک. وصولتے . یانی آپا بولیں. صرف آوازوں سے ذہن کے اسٹیج پر صورت احوال اور کرداروں کو تشکیل دینا بہت دلچسپ ہوتا ہے. اس دور کی عوامی سوچ اور ذہنوں کی تعمیر میں بھی ریڈیو نے یقیناً حصّہ بٹایا ہو گا. دادا جی بولے. ریڈیو پرسنا غلام مصطفیٰ ہمدانی کا یہ اعلان میں شاید کبھی نہ بھلا سکوں گا. السلام علیکم پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس، ہم لاہور سے بول رہے ہیں تیرہ اور چودہ اگست سنہ سینتالیس عیسوی کی درمیانی رات، بارہ بجے ہیں ، طلوع  صبح آزادی . آزادی نصیب ہوئی تو پاکستان کے پاس لاہور، ڈھاکہ اور پشاور کے ریڈیو سٹیشن تھے. کراچی سٹیشن تو ١٩٥٠ میں قائم ہوا. ہم نوجوان بناکا گیت مالا اور کرکٹ کی بال بہ بال کمینٹری کے  شیدائی تھے. کھیل کا پورا نقشہ آنکھوں میں سما جاتا تھا. پھر بچوں کی دنیا، بزم طلبہ، مشاعرے، بیت بازی اور ڈرامے. شکیل احمد اور انور بہزاد جیسی خبریں پڑھنے والے اب کہاں. انکل نے کہا. پینسٹھ کی جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں سترہ دن تک ریڈیو سٹیشن پر رہیں اور فوج کے شانہ بشانہ لڑیں. کرفیو پاس تھامے لاہور کی گلیوں سے سازندوں کو جمع کرتیں اور ملی  نغمے ریکارڈ کرواتیں. ریڈیواس دور میں ٹی وی اور فلم کے فنکاروں کی درسگاہ تھی . طلعت حسین، قاضی واجد، ضیاء محی الدین اور ٣٩ سال چلنے والا اشفاق احمد کا تلقین شاہ کون بھول سکتا ہے بھلا. بھئی  میری آئیڈیل تو شملہ میں پیدا ہونیوالی ٥٠ انچ لمبی منی باجی تھیں جو نونہال اور پھر بچوں کی دنیا سے پینتالیس سال تک جڑی رہیں اورنگار ایوارڈ حاصل کیا...........جاری ہے   www.valueversity.com2022-04-0604 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYPEHLA PYAR, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, CHAPANWA INSHA, EPISODE 56FIRST SIGHT LOVE, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 56 Nadia captured hearts across the globe in 1976 olympics. 18 year old Conner, an American gymnast, had kissed the 14-year-old Comaneci for a photo session. See what happens next پہلا پیار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چھپنواں انشا، شارق علی موج در موج سمندر ریتیلے ساحل سے ٹکراتا تو چاندنی میں نہایا دودھیا جھاگ نیلے لباس پر سجے گوٹا کناری کی طرح چمکنے لگتا. ساحل سمندر پر شب بسری کی تجویز اور ہٹ کا انتظام انکل نے کیا تھا. رات کے کھانے کے بعد دادا جی اور انکل کرسیوں پر نیم دراز حالات حاضرہ میں محو ہوۓ تو میں اور یانی آپا ننگے پاؤں نرم ریت پر قدموں کے نشان بناتے چاندنی کا ہاتھ تھامے کچھ دور نکل آئے . موضوع گفتگو منیر نیازی کی شاعری تھا. یانی آپا نے نظم کےآخری مصرعے پڑھے . یہ نا آباد وقتوں میں، دل ناشاد میں ہو گی، محبّت اب نہیں ہو گی، یہ کچھ دن بعد میں ہو گی، گزر جائیں گے جب یہ دن تو ان کی یاد میں ہو گی. کچھ خاموش قدموں کے بعد میں نے کہا. آخر اب کیوں نہیں؟ اور کچھ دن بعد کیوں؟ مسکرا کر بولیں. بھئی نادیہ اوربا رٹ کے ساتھ تو یہی کچھ ہوا تھا. مجھے ہمہ تن گوش دیکھا تو بولیں. محبّت اس پہلے پیار سے ہو جانا چاہئیے تھی جو اٹھارہ سالہ با رٹ کونر نے ١٩٧٦ میں پری اولمپک نیو یارک مقابلہ جیتنے کے بعد کسی فوٹوگرافر کے کہنے پر چودہ سالہ نادیہ کومانیچی کے رخسار پر کیا تھا. یہ واقعہ با رٹ کو تو یاد رہا لیکن نادیہ کوبالکل نہیں. وہی  نادیہ نا  جس نے ١٩٧٦ کے مونٹریال اولمپک میں تاریخ ساز پرفیکٹ ١٠ حاصل کیا تھا تو اس کی شہرت پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی. پھر وہ ٹائمز کے کورپیج پر جلوہ افروز ہوئی. میں نے کہا. بولیں. ٹھیک. امریکی جمناسٹ با رٹ نے ١٩٨٤ اولمپکس میں دو گولڈ مڈل جیتے تھے. ١٩٨٩ میں نادیہ  کمیونسٹ حکومت سے  بغاوت کر کے سات ساتھیوں سمیت ایک امریکی شخص کی مدد سے کیچڑ اور برف سے آٹی سرحد عبور کر کے پہلےہنگری اور پھر امریکا پھنچی تو ہراساں نادیہ کو ٹی وی شو میں دیکھ کر بارٹ مدد کو پھنچا اور مونٹریال میں اس کی رہائش کا بندوبست کیا. ایک سال تک یہ دوستی محض فون پر گفتگو تک محدود رہی. کئی ملاقاتوں اور سوچ بچار کے بعد ١٩٩١ میں بارٹ نے ایمسٹرڈیم میں نادیہ کو شادی کے لئے پروپوز کیا. پھر پہلے پیار کے سولہ سال بعد ٣٤ سالہ نادیہ اور ٣٨ سالہ بارٹ  نے رومانیہ کے شہر بخارسٹ کے آرتھوڈوکس چرچ میں شادی کی تو یہ تقریب رومانیہ کے قومی ٹی وی اور وائڈ ورلڈ آف سپورٹس کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گئی. آج وہ دونوں رومانٹک پیر جمناسٹکس کے با نی سمجھے جاتے ہیں. منیر نیازی کی کہی نظم محبت اب نہیں ہو گی سمجھنا چاہو ممدو تو نیل ڈائمنڈ کے گانے گر دنیا میں خواب نہ ہوتے پر نادیہ اور با رٹ کا جمناسٹک رقص دیکھ لینا جو دنیا بھر میں مقبول ہے......جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-0504 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYMIRPURKHAS KAY AAM, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, PACHPANWAN INSHA, EPISODE 55DELIGHT OF MIRPURKHAAS, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 55 میرپورخاص کے آم، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پچپنواں انشا، شارق علی پھول بن ندی کے کنارے پکنک تھی.آموں سے لطف اندوزہونے کے دوران گفتگو چل نکلی. انکل بولے. آم تو یہ بھی خوب ہیں لیکن میرپورخاص کے آموں کا جواب نہیں. جتنی قسمیں وہاں دیکھیں کہیں اور نہیں، مختلف شکلیں، چھوٹے، بڑے ، پیلے، نارنجی، لال، اور ہرے آم . خوشبو اور ذائقوں کی بہار. معلوم ہے ممدو آم کے پھول چھوٹے اور سفید رنگ کے ہوتے ہیں. ہرپھول میں پانچ پتیاں. دادا جی بولے. آم کی کاشت پانچ ہزار سال پہلے سندھ سے شروع ہو کر سارے ہندوستان میں پھیلی تھی. بودھ کو گیان دھیان کے لئے آم کی ٹھنڈی چھاؤں اچھی لگی تو پیروکار تعلیمات اور بیج لئے پورے اشیا میں پھیل گئے. پھر مشرق وسطیٰ اور تیسری صدی میں یہ بیج جنوبی امریکا پہنچے. تین سو سالہ  پھلدار آم تو اب بھی مغل باغات میں دکھائی دے جاتے ہیں اوردرخت کی بلندی کوئی سو فٹ کے قریب. یا نی آپا نے کہا. ایک کپ آم کے رس میں سو کیلوریز ہوتی ہیں اور دن بھر کی وٹامن سی اور فا ئیبر کی ضرورت پوری. کچھ ذکر میرپورخاص کا بھی تو کیجئے؟ میں نے کہا. انکل بولے. بھئی بہت پرانی بات ہو گئی اب تو. کوئی پانچ برس کی عمر ہو گی میری. کچھ روشن کچھ دھندلی تصویریں ہیں بس . پینسٹھ کی جنگ میں سڑک سے گذرتے فوجی قافلے اور کنارے  پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرتی عوام. دعاؤں کو اٹھے جھریوں بھرے بزرگ ہاتھ.  یا پھر ہمارے گھر کی کھڑکی سے نظر آتے کلینک کے باہربیٹھی تھر سے آئ مریض عورتوں کے سفید کڑوں  سے ڈھکے بازو،رنگین گھاگرے اور ان کی بیل گاڑیوں میں جتے خوبرو اور توانا بیل. کریم بیکری کے مالک کی بڑے بھائی سے شناسائی اور دو زردی والے انڈوں کی سوغات. کڑھائی سے اترتے گرم آلو بھرے پکوڑوں اور دال سیو کی مہک. چٹپٹی چٹنی کے آتشیں لطف کے ساتھ. کاٹن فیکٹری میں روئی کے پہاڑ جیسے ڈھیر پر اونچائی سے جیمز بانڈ کی سی چھلانگیں. پھر کبھی گئے آپ میرپورخاص؟ میں نے پوچھا. بولے. جن بوجھ کر نہیں. یادوں کے شیش محل چکنا چورنہ ہوجائیں کہیں. صحرائے تھر کے کنارے سندھ کا تاریخی شہر ہے میرپور. چوتھی صدی عیسویں میں کہو جو ڈیرو کے نام سے بنیاد پڑی تھی اس کی. بدھسٹ دور کے قدیم آثار اب بھی ملتے ہیں وہاں. پھر تالپوروں نے باقاعدہ شہر آباد کیا اور انگریز زمانے میں یہ بمبئ پریزیڈنسی کا حصّہ رہا. پاکستان بنا تو کھوکرا پار سے آنیوالے مہاجرین کو خوش آمدید کہنے والا پہلا شہر تھا یہ. پھر شاہی بازار، اسٹیشن روڈ اور حیدرآباد روڈ آباد ہوتے چلے گئے اور اب تک ہیں. سب سے زیادہ شہرت آموں کے باغ اور آموں کو ملی. خاص طور پر سندھڑی کو. وہاں کے آموں کا جواب نہیں ممدو........جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-0404 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYABDUL KA DHAKA, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, CHAOANWAH INSHA, EPISODE 54Find an intimate glimpse of the most rapidly growing city of the world in this story عبدل کا ڈھاکہ ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چونواں انشا، شارق علی عطا ترک روڈ اور اٹھارویں منزل پر واقع بخارہ ریسٹورینٹ کی میز پر بیٹھ گئے تو وفد کے ساتھیوں نے اچانک کیک نکالا، موم بتیاں بجھیں، کیک کٹا، آئی فون سے جڑے اسپیکر کی موسیقی میں میرے لئے ہیپی برتھ ڈے گایا گیا۔ انکل پٹیل ڈھاکا  کو یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ سرپرائز پارٹی کے بعد نیچے اترے تو گلشن گیسٹ ہاؤس جانے کے لئے رکشے لئے گئے ۔ عبدل اور اس کے سائیکل رکشا سے اسی دن دوستی ہوئی۔ پان سے رنگے دانت، چہرے اور ہاتھ پیروں کی ہڈیاں نمایاں، ڈھیلا کرتا، ملگجی دھوتی، سلائی شدہ چپل، ادھیڑ عمرماتھے پر رزق حلال کا نور۔ اردو واجبی سی ۔ تھوڑا بول سکتا سوب۔ جیادہ نہیں۔ ہر صبح گیسٹ ہاؤس سے باہر نکلتے تو گیٹ پر موجود ۔بس رکشا قریب لا تا اوردانت نکال دیتا۔ منزل دور ہوتی تو ٹیکسی ورنہ عبدل زندہ باد۔ ڈھا کہ کے دونوں رخ دیکھے۔ میزبانوں کودکھایا ہواپانچ ستاروں والا ڈھا کہ بھی اور غریبی کے صبح و شام والاعبدل کا ڈھاکہ بھی۔ آبادی سے شرابور شہر، بے قابو ٹریفک، ہارنوں، رکشہ گھنٹیوں اور زبانی چیخ پکار کا شور۔ ہر سو گز پر چائے کی چھوٹی بڑی دکان۔ میٹھا اور دودھ بہت زیادہ۔ سائیکل رکشون کے ہجوم جن کے پچھلے تختوں پر مصوری کے شاہکار بنے ہوئے، فلم اسٹار، مکہ مدینہ، دیوی دیوتا، درخت، پہاڑ، جانور، سب موجود۔ کوئی بازار دیکھا آپ نے؟ یانی آپا بولیں۔ کہنے لگے، جدید شاپنگ سینٹر توویسے ہی جیسے سب بڑے شہروں میں۔ ایک دن عبدل کے ساتھ تین سوسالہ شنکریہ بازار گئے۔ ہندو محلہ۔ چھوٹی تنگ گلیوں میں پتنگ، زیورات، قبروں کے کتبے اورہندو دیوتاوں کی تصویریں بناتے کاریگر۔۔ کشتی میں بیٹھنا ہوا آپ کا؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ ہاں دو ایک بار، سطح سمندر سے نیچے ہونے کے سبب شہر بھر میں جابجا مردار پانی یا دریا سے جڑی جھیلیں دکھائی دیتی ہیں۔ اور مسافر کشتیاں ادھر ادھر جاتی ہوئی۔ کناروں کے ساتھ بانسوں پر کھڑی جھونپڑ پٹیوں کے سلسلے ہیں دور تک۔ اداسی اور بے بسی کا دل سوز منظر. بڑی گنگا دریا پرانے ڈھا کہ  کے بیچ سے گزرتا تھا کبھی۔ اب تو ایک جوہڑ سمجھو. غریبی امیری کنارے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک طرف کمارتولی میں احسن مونجل کی محل نما عمارت ہے جو مغل زمانے میں نواب کے خاندان کا گھر تھی اور اب میوزیم۔ اس کے شاندار کمروں میں اکثر ثقافتی میلے سجتے ہیں۔ دوسری جانب ساتھ لگی گنجان آبادیوں میں محنت کشوں کے شب و روز جو دریائ کیچڑ میں اپنا رزق، اپنا مقدر تلاش کرتے ہیں۔ ہرے بھرے کھیت کھلیانوں سے آئے ہوے دیہاتی جو دنیا کے سب سے تیزی سے پھیلتے شہر میں دو وقت کی روٹی سے کبھی جیتتے ہیں کبھی ہارتے۔ اور دھا ن منڈی؟ دادا جی نے پوچھا۔ بولے۔ خوشحال رہائشی علاقہ ہے دھان منڈی، یہیں  شیخ مجیب کی قیام گاہ تھی اور یہیں انہیں اور بیشتر خاندان والوں کوانیس سو پچہترمیں قتل کیا گیا۔ آبادی کے بیچ میں ایک جھیل ہے اور ساتھ ٹہلنے کے لئے بنا ہواخوبصورت فٹپاتھ . بنگال ٹائگر دکھائی دیا کبھی؟ میں نےاچانک سے پوچھا۔ بولے۔ کیوں نہیں۔ عبدل کے رکشے کے پچھلے تختے پر منہ کھولے دھاڑ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-0305 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYJESSE, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 53JESSE OWENS, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 53 Jesse Owens is the most influential athlete of the world who overcame poverty and racism by winning four gold medals at the 1936 Berlin Olympic Games جیسی، دادہ اور دلدادہ، انشے سیریل، تریپنواں، انشاء، شارق علی سیٹ کی آواز پر گہرا سانس لیا اور بینگ ہوتے ہی پوری طاقت سے سانس باہر نکالتے ہوئے سو میٹر کی فنش لائن کی سمت دوڑا اور سینہ آگے نکال کر ڈ پ کرتے ہوئے فنش کیا۔ پریکٹس رن کے دوران بتائی ہوئی ٹپس پر عمل کیا تویانی آپا نے تھمب اپ کرکے شاباش دی ۔ انٹر اسکولزنزدیک تھےاور میرا مقابلہ قد کی بنیاد پر بڑی عمر کے لڑکوں سے تھا۔ یانی آپا جو اپنے کالج کی بہترین اتھلیٹ ہیں میری کوچ تھیں۔ پریکٹس سیشن ختم ہوا تو ٹریک سے باہر آئے۔ میرون ٹریک سوٹ اورپونی ٹیل باندھے یا نی آپا اور میں ایرینا کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ بولیں. بڑی عمر کے لڑکوں سے مقابلے کے امتیازی سلوک کا خیال آئے تو جیسی اوونزکی کہانی یاد رکھنا ممدو۔ وہی نا جس نے ہٹلر کا غرور خاک میں ملایا تھا؟ میں نے کہا ۔ بولیں۔ ہاں وہی۔ انیس سو تیرہ میں الاباما میں پیدا ہونے والا سیاہ فام جیسی ایک لیجینڈ ہے، شاید انسانی تاریخ پر سب سے گہرا اثر ڈالنے والا اتھلیٹ۔ بچپن سے برق رفتار جیسی  نےسو میٹرنو اعشاریہ چارسیکنڈ میں  بھاگ کر دنیا کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ پھر دو سو میٹر۔ دو سو بیس گزکی ہرڈ لس اور لانگ جمپ میں انیس سوچوراسی تک قائم رہنے والا عالمی ریکارڈ۔  سیڑھیاں ختم ہوئیں تو ہم پہا ڑی پربنے جمنازیم کی عمارت کے ساتھ لگے باغ  میں گلاب کے پھولوں سے بھری کیاری کے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئے۔ یا نی آپا نے بات جاری رکھی۔ ان دنوں امریکا میں نسلی امتیازعروج پر تھا۔ اتھلیٹک سٹارہونے کے باوجود اسے گورے ہاسٹل میں قیام کی اجازت نہ تھی۔ کھانا صرف سیاہ فام ریستورانوں میں اور اسکالرشپ کے حق سے بھی محروم۔ شام سنہری ہو چلی تھی اور ہماری بینچ سے دور تک دکھائی دیتا منظر قابل دید تھا۔ سفید لائنوں والا سرخ  بیضوی ٹریک چوکور سبز میدان کو گھیرے ہوئے تھا۔ پیچھے دیوار کے ساتھ لگے پام کے درختوں کی قطار تھی۔ دائیں طرف سنگ سرخ سے بنے یونیورسٹی کے بلڈنگ بلاکس۔ اور سامنے کئی سمتوں سے آتی سڑکوں کا ملتا، تقسیم ہوتا، پھر گلے ملتا فلائی اوور۔ جی چاہا کہ میں اور یانی آپا یونہی اس بینچ پر بیٹھے رہیں اور یہ شام کبھی ختم نہ ہو۔ انہوں نے خاموشی کو توڑا اور بولیں۔ انیس سو چھتیس میں برلن اولمپک ہوا تو ہٹلرجرمنی کا حاکم تھااور نازی سوچ اپنے عروج پر۔ اولمپک کووہ جرمن قوم کی نسلی برتری ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ جیسی  نے چار اہم اولمپک گولڈ میڈل جیت کر ان کے عزائم خاک میں ملا دیئے ۔ اس جیت نے اسے گورے اتھلیٹس کے ساتھ سفر کرنے اور ریسٹورانوں میں جانے کی آزادی دی۔ جیسی  کی یہ کامیابی امریکا میں برابری کے حقوق کی جنگ کا بھرپور آغاز تھا۔ جیسی انیس سو اسی میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ برلن کی ایک سڑک اور اریزونا کا ایک ہسپتال اس کے نام سے منسوب ہے۔ وہ کہتا تھا کامیابی کے خواب سب دیکھتے ہیں لیکن تعبیر صرف ثابت قدم، مسلسل جدوجہد اور نظم و ضبط کی پابندی کرنے والوں کو ملتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے  www.valueversity.com2022-04-0204 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYFORTALEZA MAIN DAAKA, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, BAWNAWAN INSHA,EPISODE 52Enjoy the beauty of a modern city of Fortaleza and its spectacular beaches and vibrant culture. Brazilian city with a world record for the largest amount of money stolen from a bank by robbers فورٹالیزامیں ڈاکہ ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، باونواں انشا، شارق علی ہوٹل لوزیروس کی سولہویں منزل پر کمرے کی کھڑکی کا پردہ سرکایاتومیلوں دور تک پھیلے سفید ریتیلے ساحل کے  ساتھ  لگے پام کے درختوں کی طویل قطار نظر آئی. سامنے بحیرہ اقیانوس کا نیلا سبز پانی، ساحل پردوڑتے، کھیلتے، تیرتے اور رنگ برنگی چھتریوں کےنیچے دھوپ سینکتے مردوزن اور بچے. ساحل کے ساتھ لگی سڑک جس پر میلے کا سا سماں. ریستوران، پھولوں اور کتابوں کی دکانیں، سٹریٹ پرفارمرز. انکل پٹیل  فورٹا لیزا  کا احوال سنا رہے تھے. بولے. جنوبی امریکا کے سب سے بڑے، اور تین ٹائم زون والے ملک برازیل کے بیابانوں میں فورٹا لیزا جیسے جدید شہر کی اونچی عمارتیں اورصبح شام کارنیوال جیسی  رونق بے حد حیران کن تھی. دستک ہوئی تو دروازہ کھولا. برازیلین میزبان لوکس میرے سامنے تھے. پنٹو مارٹن ائیرپورٹ سے ہوٹل پہنچنے میں تو صرف پندرہ منٹ لگے تھے لیکن سائو پائولو سے تین گھنٹے کی مقامی فلائٹ میں پیٹ پوجا کے لئے صرف بسکٹ اور جوس ملا. شدّت کی بھوک مٹانے کے لئے لوکس نے لزیروسمیں موجود تین ریستورانوں اور سشی بار میں سے کسی ایک کی تجویز دی. دل انڈین پاکستانی کھانوں کے لئے بے چین تھا. لفٹ سے اتر کر ہوٹل سے باہر آئے اور سڑک  کی رونق کا حصّہ بن گئے. برازیل  ایک کھلی ڈ لی ، رقص و موسیقی سے بھرپور ہنستی کھیلتی ثقافت کا نام ہے. رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق سے بے نیاز صرف برازیلین ہونے پر فخر کرنے والے خوش باش لوگ. ڈ یل پاسسیو کا مرکزی بازار کوئی آدھے میل کے فاصلے پر تھا. کچھ دور پیدل چلے تو سڑک کے کنارے البیک کا بڑا سا بورڈ نظر آیا. بھوک کی شدّت نے حلال چکن  اور ہومس کو غنیمت جانا. مزیدار کھانے  کے دوران لیو کا نے ٢٠٠٥ میں فورٹالیزا  کے گینسس ورلڈ ریکارڈ ڈاکے کا قصّہ سنایا. اندازن چھ سے دس ڈاکو جوکان کنی، حساب دانی اور  جی پی ار ایس ٹیکنا لوجی کے ماہرتھے اور جدید آلات اور اوزاروں سے لیس، کئی مہینے سرنگ کھودنے کے بعد، سینٹرل بینک کے والٹ سے سترملین ڈالر کے مساوی رقم لے اڑے تھے. واردات سے کچھ مہینے پہلے انہوں نے بینک کے قریب ایک گھر کرائے پر لیا اور باہر لینڈ سکیپ کمپنی کا بڑا سا بورڈ لگا دیا. پھر وہاں خفیہ سرنگ کھودنا شروع کی. محلے والے روز مٹی سے بھرے ٹرک آتے جاتے دیکھتے اور یہ سمجھتے رہے کہ  یہ گھانس اور درخت لگانے والی کمپنی کے معمول کی مصروفیات ہیں. چند مہینوں میں انہوں نے چار میٹر گہری اور اسی میٹر لمبی سرنگ کھود لی جو مرکزی بینک کے والٹ تک پھنچتی تھی. اتوار کی چھٹی آئی تو وہ والٹ کی ایک میٹر چوڑی  سٹیل کی چادر کو کاٹ کر اور حفاظتی الارم کو ناکارہ بنا کر اس میں داخل ہو گئے اور کرنسی نوٹوں سے بھرے پانچ کریٹ جن کا مجموعی وزن پانچ ٹن تھا کو لوٹ کر لے جانے میں کامیاب ہو گئے. اس رقم کی انشورنس نہیں کروائی گئی تھی کیونکہ چوری کا امکان بہت کم اور پریمیئم زیادہ تھا. نہ ہی نوٹوں کے نمبروں کا کوئی ریکارڈ موجود تھا. ڈکیتی کا پتا اگلے دن چلا جب معمول کے مطابق بینک کھلا. آج تک سواۓ کچھ رقم اور چند مشتبہ افراد کے، پولیس اصل ملزمان اورلوٹی ہوئی رقم تک پھنچنے میں ناکام ہے......جاری ہے   www.valueversity.com2022-04-0104 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYQUAID KA KHWAB, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, IKYANWA EPISODE 51JINNAH`S DREAM, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 51 Cyrus cylinder, a baked-clay cylinder in Akkadian language with cuneiform script, is now recognized as the world’s first charter of human rights. Did Cyrus and Jinnah have the same dream?  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an...2022-03-3104 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYPICASSO KAY RANG, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, PACHASWA INSHA, EPISODE 50PICASSO COLOURS, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 50 Picasso left an extensive legacy and influence on modern art. Enjoy the fascinating story of his lifelong connections to colours, to art and life. پکاسو کے رنگ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پچاسواں انشاء، شارق علی سینٹ جیمسزپارک کی جھیل میں تیرتے پرندے اور ہم موسم بہار کے روشن دن کا مزہ لے رہے تھے۔ کتھئی رنگ اورپرانے فیشن کی لمبی سی سکرٹ اور فلیٹ جوتے پہنے لزاور میں جھیل کے کنارے فٹ پاتھ پرچلتے ہوے گفتگو کے ساتھ پارک میں لگے نایاب درختوں اور پھولوں سے بھری کیاریوں سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ درمیانے قد، سبک  جسم، سیاہ فریم کے چشمے سے جحانکتی ذہین سبزآنکھوں اور سنہرے بالوں والی لز یو سی ایل میں مصوری  کی استاد ہے۔ فنون لطیفہ سے دلچسپی کالح کے دنوں سے ہماری دوستی کا سبب ہے۔ انکل پٹیل لندن کا ذکر کر رہے تھے ۔ بولے۔ ہارس چیسٹنٹ کے اونچے درخت کےساے میں لگے بلو بیل پھولوں کے گچھے دیکھ کر لز نے کہا۔ دیکھو اداسی کا نیلا رنگ۔ 1901 میں پکاسو نے پیرس میں مصوری شروع کی تو اسی سال اس کے دوست کارلوس نے خود کشی کی تھی۔ پکاسو کی اس دور کی تصویروں میں یہ اداس نیلا رنگ نمایاں نظر آتا ھے۔ انہی دنوں اس کے کام میں  چہرے اور اعضاء لمبوترے ہونا شروع ہوئے تھے ۔ ساحل پرغریب لوگ اور بوڑھا گیٹا رسٹ اس دور کے شاہکار ہیں۔ میں نے کہا۔ 1904 میں جب اسے ایک فرانسس ماڈل سے محبت ہوئی تو ولولہ انگیز گلابی اور نارانجی رنگ اور زنداگی سے بھرپور مناظر جیسے سرکس کی  خوش رنگی کینواس پر لوٹ آی. ایک نقا د نے اسے دور گلاب کہا تھا. ایک دیہاتی، ماں اور بچہ انہی  دنوں کے شاہکار ہیں. باتیں کرتے ہوۓ میں اور لز پارک سے نکلے اور سڑ ک عبور کر کے ما ل گیلری کے سامنے پھنچ گئے. کریم کلر کی تین منزلہ با وقارعمارت. ستونوں اور کشادہ کھڑکیوں کے گرد پتھریلے نقش و نگار. اندر ایک کشادہ ہال ، اوپرفالس سیلنگ اورچاروں طرف دیواروں پر لگی رنگ برنگی پینٹنگز.خالی ہال کے بیچ میں صرف دوبینچیں رکھی تھیں . تصویروں کو کھڑے ہو کر  دیکھیے اور آگے سرکتے جائیے . ہم دونوں کچھ دیرکوبینچ پر بیٹھ گئے. لز بولی، بلا شبہ ١٨٨١ میں اسپین کے شہر مالاگا میں پیدا ہونیوالا پکاسو ایک غیر معمولی مصور  تھا. اس کا طرز مصوری جو کیوبزم کہلاتا ہے اور شاہکار مصلاً تین موسیقار اور روتی ہوئی عورت عالمی شہرت رکھتے ہیں. چودہ سال کی عمر میں بارسلونا اور میڈرڈ کے آرٹ اسکولوں کی روایتی تعلیم سے وہ بہت جلد اکتا گیا تھا. کچھ نیا کردکھانے کی دھن اسے پیرس لے گئی. جیورجیس براک کے ساتھ مل کر کیوبزم کی طرز ایجاد کی تو وہ اس کی پہچان بن گئی. اس میں سبجیکٹ کو ٹکڑوں میں بانٹ کر نئے پہلوں اور زاویوں سے اس کی تشکیل نو کی جاتی ہے. پھر کیوبِزم اور کولاج کا ملاپ کچھ اس طرح سے کیا کہ ریت اور پلاسٹر کو رنگوں میں ملا کر، رنگین کاغذ اور اخبار کے تراشوں کو بھی اپنے شاہکاروں میں شامل کر لیا. تین موسیقارایسے کام کی بھرپورمثال ہے. میں نے لز کویاد دلایا. ان جدید رویوں کے علاوہ اس نے مصوری کے کلاسیکی انداز میں بھی جوہر دکھاے تھے . رینیساں مصوروں مثلاً رافایل سے خوب استفادہ کیا. ١٩٢٤ میں پکاسو سرریلیزم  کی طرف متوجہ ہوا. گویا ایسی تصویریں جن کا کوئی شعوری مفھوم نہیں ہوتا بلکہ وہ خواب جیسی کیفیت رکھتی ہیں. لزبولی. اس کی تصویر سرخ آرام کرسی اس دور کی نمائندہ ہے. مینوٹار بھی اس کی تصویروں میں کئی  جگہ دکھائی دیتا ہے جس کا جسم انسان کا اور سر بیل کا ہے. وہ کہتا تھا. میں وہ بناتا ہوں جو میں سوچتا ہوں صرف دیکھتا نہیں. نت نئے انداز اپنانے والے بیسویں صدی کے عظیم مصور کا آخری شاھکار خود اپنا پورٹریٹ موت کے سامنے شخصی خاکہ ہے. تقریباً  ١٨٠٠ تصویریں اور ١٢٠٠ مجسمے بنانے والے کا کام ١٠٠ ملین ڈالر سے زیادہ میں فروخت ہوا. وہ ١٩٧٣ میں دنیا سے رخصت ہوا…….جاری ہے Listen, read, reflect and enjoy!  www.valueversity.com2022-03-3005 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYAATISH ZAN, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, UNCHASWA INSHA, EPISODE 49BOOK BURNING, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST. EPIDOE 49  Dada Ji explains that radical authoritarian approach is common in both religious extremism and fascism. Books and CDs burning in Islamabad are no different than similar ceremony in Natzi Berlin آتش زن، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، انانچاسواں انشا، شارق علی موسلا دھار بارش تھمی تو سورج نے بادلوں سے آنکھ مچولی کھیلنا شروع کی. سیر کو نکلے تو راستے کے ایک جانب لہلہاتے کھیت اور دوسری طرف گنگناتی ندی کے کنارے بھیگے ہوئے درختوں کی قطار تھی. آج یانی آپا بہت خوش تھیں. حقوق نسواں کا قانون جو پاس ہوا تھا. غصّے کی چلچلاتی دھوپ تو اس دن نکلی تھی جب ٹی وی پر لہو رنگ درگاہ کے خطیب کے اکسانے پر سینکڑوں سر ڈ ھکے مرد اور نقاب پوش عورتوں کو لادینی کتابوں اور سی ڈی جلاتے دکھایا گیا تھا. میں نے یاد دلایا تو بولیں. مجھے شدّت پسندی ناپسند ہے ممدو. مذہبی سوچ اور جذبات کو ایسی انتہائی حد تک لے جاناکے ساتھ بسنے والوں کا جینا محال ہوجائے، انسانی آزادی اور اخلاقی قدروں کی پامالی ہونے لگے، کیسے قبول کی جا سکتی ہے. دادا جی بولے. صرف جذبات پر مبنی عقل وفہم سے عاری سوچ پہلے مایوسی اور پھر تشدد اختیار کرتی ہے. ہر دور میں شدّت پسندی انسانی تباہی کا باعث بنی ہے. اور ہماری آج کی دنیا کے لیۓ یہ ایک بڑا خطرہ ہے. میں تو کہوں گا  کہ یہ ایک نوعیت کا فاشسٹ رویہ ہے جو منطقی لحاظ سے کمزور لیکن اقتدار کے خواہشمند گروہ اختیار کر لیتے ہیں. فاشسزم کیا ہوتا ہے دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے یہ اصطلاح ١٩١٩ میں اٹلی پر مسولینی کے اقتدار سے شروع ہوئی. اس ظالمانہ نظام میں صاحب اقتدار کی طاقت مرکزی اور عوام کی آزادی اور حقوق ثانوی حیثیت رکھتے ہیں. انسانی معاشرہ واضح اور سمجھ میں آنے والے اصولوں مثلا خوش حالی اور آزادی کے تحت تشکیل دیاجا سکتا ہے. مذہب فرد یا گروہ کی روحانی تسکین کا باعث تو ہے لیکن رضائے الہی کا تصور اور راستہ سب ذہنوں میں مختلف ہوتا ہے. کسی ملے جلے معاشرے میں مذہبی اصولوں پر اتفاق رائے نا تو ممکن ہے اور نہ ہی قابل عمل. لیکن لال درگاہ والوں کو کتابیں اور سی ڈی جلانے کی کیا سوجھی؟ میں نے پوچھا. بولے. تم تاریخی مثال سے بہتر سمجھ سکو شاید. جرمن شاعر ھینرک ہا ین نے ١٨٢١ میں کہا تھا. دیکھنا کتابیں جلانے والے بالآخر انسانوں کو جلائیں گے. صرف سو سال بعد ١٩٣٣ میں ہٹلر نے ایسی تمام تحریروں کو ضبط کرنے اور جلا دینے کا حکم دیا تھا جو اس کے قومی سوشلسٹ ایجنڈے کے خلاف تھیں. جرمنی اور آسٹریا کے شہروں میں عوامی جلسے کئے گئے جن میں یہودی، کمیونسٹ، امن پسند، اشتراکی اور آزاد خیال ادیبوں کی کتابیں جلائی گئیں. برلن کے محلےاوپرن پلاٹز میں فوجیوں اور طالب علموں کے جنونی جتھوں نے بیس ہزار کتابیں نظرآتش کیں جن میں ہیلن کیلر، ارنسٹ ہیمنگوے، کارل مارکس اور ایچ جی ویلز کی کتابیں شامل تھیں. فا شسٹ  گروہ گھنائونے جرائم کے لئے اخلاقی  اور مذہبی جواز تلاش کر لیتے ہیں. ان آتش زن جلسوں کو غیر جرمن روح کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا. آگ سے پاک کرنے کی تقریب کہہ کر مقدس بنایا گیا. گلی گلی اعلانات ہوتے. اخبارات اور ریڈیو پر اشتہارات دیئے جاتے. مرکزی چوک میں کتابیں جلانے کے بعد نعرے لگاتے ہجوم گلیوں میں پریڈ   کیا کرتے تھے. پھر اس کے بعد ہٹلر کے اجتماعی انسانی قتل کے سنگین جرائم تو تمھارے علم میں ہیں ہی. تو ہوا نا  کتابوں کی آتش زنی ایک فا شسٹ رویہ ..........جاری ہے Listen, read, reflect and enjoy! www.valueversity.com2022-03-2904 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYQISSA KHWANI BAZAR, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, ARTALISWA INSHA, EPISODE 48BAZAR OF STORYTELLERS, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 46 In the Bazar of  Story-tellers, here comes the story of storytelling and the first non violent sacrifice made for the freedom of Indian subcontinent www.valueversity.com   00:00 00:00 قصّہ خوانی بازار، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، اڑتالیسوں انشا، شارق علی  زلزلے کو دو ماہ گزر چکے تھے. میں اورکرنل خان آزاد کشمیر کے تفصیلی دورے کے بعد ایبٹ آباد گیسٹ ہاؤس پہنچے. انکل پٹیل ٢٠٠٥ کا سانحہ یاد کر رہے تھے. بولے. تباہ شدہ ملبے کے ڈھیر ، سڑکوں میں پڑی دراڑیں، مظفرآباد ہسپتال کی جھول کھائی عمارت اور خیمہ ہسپتالوں میں زیر علاج معذور. رات گئے تک ڈونرز میٹنگ کے لئے رپورٹ مکمل کی. چند گھنٹے آرام اور علی الصبح  پشاور روانگی. ماہر ڈرائیور نے میٹنگ سے بہت پہلے پوھنچا دیا. قہوہ پینے قصّہ خوانی بازار پہنچے تو رومانوی تصور کو دھچکا لگا. نہ کارواں نہ سرائے، نہ ہی آتشدان کے گرد بیٹھے دور دراز منزلوں سے آئے کہانی کہتے سنتےمسافر. وہی عام بازارکی سی بھاگ دوڑ ، گاہکوں کا جمگھٹ اور ٹریفک کا شور. قہوہ اور کلچہ لیکن لاجواب. خان نے بتایا. پھولوں کا شہر پشاور ہندکو بولتے پشوریوں کا شہر تھا جس میں افغان اور آزاد علاقوں کے پشتو بولنے والے بھی آ بسے. یہ وسطی اور جنوبی ایشیا کا سب سے قدیم شہر ہے. دوسری صدی عیسویں میں قصّہ خوانی کی سرایوں میں کنیشکا تہذیب کے مسافرمختلف دنیاؤں کی خبر لئے قیام کرتے اور روشن الا ئو کے گرد حلقہ بناے قہوہ ہاتھ میں لئے کہانیاں کہتے اور سنتے تھے. میں نے کہا. پہلی انسانی کہانی تویقیناً اس بازار سے بھی زیادہ قدیم ہے. جانے کس غار میں ابتدائی انسانی گروہ کے کسی شکاری نے کہانی کہ کرناکامی کا جواز پیش کیا ہو، یا خطرناک شکار سے پہلے خوف دور کیا ہو. کامیابی کی امید دلائی ہو. تہذیب آگے بڑھی تو کہانی کار کو طاقت اور احترام حاصل ہوا. تحریر سے پہلے واقعاتی تفصیل کو کہانی کی صورت کہنا اور سننا ہی سیکھنے کا واحد ذریعہ تھا. پھر کائناتی اسرار اور موت کے بعد کی کہانی سنانے والے مذہبی رہنما بن گئے. لوگ اور کہانیوں سفر کرنے لگے. بقول انتظار حسین کہانیاں آوارہ گرد ہو گئیں . لیکن کچھ دور دراز کے سفر سے  گھر کو بھی لوٹیں. قصّہ خوانی کتنا روشن ہوتا ہو گا ان دنوں جب دور دراز اور نسل در نسل تجربات اور دانشمندی کے روشن چراغ یہاں جگمگاتے ہوں گے. جب اندوہناک اور ناقابل فہم صدموں سے یہ کہانیاں انسان کو سہارا دیتی ہوں گی . طوفان ، زلزلے، بجلی کی چمک، ستاروں بھری رات کی آسان وضاحت کی تسّلی دیتی ہوں گی . بزرگوں کی عظمت اور اندیکھے خداؤں کو مبالغے سے سنوارتی ہوں گیں. خان نے کہا. آج بھی تو ہم کہانیوں میں گھرے ہوۓ ہیں. فلم، ڈرامہ، شاعری، خبریں، مصوری، اور دوسروں کے مذاھب ہمارے لئے کہانیاں ہی تو ہیں. سیاست، طب، قانون، ادب، تجارت غرض یہ کہ کون سا شعبہ ہے جو کہانیوں کے بغیر گزارا کر سکے. میں نے کپ میز پر رکھا اور کہا. جانے کتنوں نے اسی جگہ حیران کرتی، گدگداتی، آنکھیں نم کرتی اور قصّہ گو کے انداز، تیور اور لب و لہجے کے ساتھ ہلکورے لیتی کہانیوں کا ہاتھ تھاما ہو. خان نے کلچے کا آخری ٹکڑا اٹھایا اور بولے. اس بازار کی سب سے ولولہ انگیز کہانی ١٩٣٠ میں باچا خان کی قیادت میں آزاد ہندوستان کے لئے پہلی عدم تشدد کی نہتی قربانی ہے. برطانوی سامراج کی آرمڈ گاڑیاں پر امن عوام پر چڑ ھا دی گئیں تھیں. بے دریغ گولیاں برسائی گئیں اور سرکاری بیان بیس اور مقامی لوگ کہتے ہیں چار سوخدائی خدمتگارشہید ہوۓ . تحریک آزادی  کا یہ فیصلہ کن لمحہ قصّہ خوانی کی سب سے لازوال کہانی ہے…..جاری ہے www.valueversity.com2022-03-2805 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYBRIGHTON KA JACK, DADA AUR DILDADA URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, SAINALISWA INSHA, EPISODE 47JACK FROM BRIGHTON, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 47 Two friends while walking on the seaside resort of Brighton discovers the ups and downs of the history of city and the human endeavor to excel and be respectable  www.valueversity.com2022-03-2702 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYMULK E SUKHAN, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, CHAYALISWA INSHA, EPISODE 46CHILE, LAND OF POETS, GRANDPA & ME, URDU/HINDI PODCAST SERIAL, EPISODE 46 This story is about two Nobel Prize winners in literature from Latin America. Gabriela Mistral and Pablo Neruda. Enjoy the visit to the land of poets  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible m...2022-03-2604 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYTRGEDY PODCAST SERIAL, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 45المیہ دادا، اور دلدادہ، انشے سیریل، پینتالیسواں انشا،شارق علی کنگس کالج میں میرے کمرے کی کھڑکی سے دریاۓ کیم میں بانسوں اورچپووں سے چلتی چھوٹی کشتیاں اکثر نظر آتیں. اسے پنٹنگ  کہا جاتا ہے. انکل کیمبرج میں گزارے وقت کو یاد کر رہے تھے. کہنے لگے. دنیا کی بہترین درسگاہوں میں سے ایک. صدیوں پرانی عمارتیں، پتھریلی گلیاں، سر سبز باغ، گھنے درخت اور دنیا بھر سے آئے ہونہار طالب علم. دلکشی اور دانشمندی گویاایک ساتھ. ١٢٠٩ میں آکسفورڈ کے استادوں اور طالب علموں نے پولیس سے ہراساں ہو کر کیمبرج کواپنا نیا ٹھکانہ بنایا تھا. اکتیس کالجوں سے بنی اس یونیورسٹی کی آکسفورڈ سے رفاقت آکسبرج کے نام سے آج تک سلامت ہے. گھومنے نکلتا تو اکثر سوچتا کہ ان ہی راستوں پر سے کبھی ڈارون اور نیوٹن بھی گزرے ہوں گے. ہو سکتا ہے سامنے کوفی ہاؤس میں بیٹھے سی ایس لوئیس کو نارنیہ کا خیال سوجھا ہو. ورجیںیا وولف نے اس بینچ پر بیٹھ کر مسز ڈالووے کا آخری باب لکھا ہو. سب سے زیادہ یاد ڈاکٹر عبدالسلام کی آتی. اسکالر شپ پر پاکستان سے امد اور ڈبل ہونرس کے ساتھ کمبرج میں کامیابی. پھر کیونڈ ش لیبارٹری سے تھیوریٹیکل فزکس میں پی ایچ ڈی کی تکمیل. ساہیوال کی گلیوں کو کیا خبر تھی کہ ١٩٢٦ میں پیدا ہونیوالا یہ طالب علم جس نے چودہ سال کی عمر میں پنجاب یونیورسٹی کے میٹرک امتحان کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے، ایک دن عالمی سائنسی کے آسمان پر چمکے گا. کیمبرج بھی اس علمی عروج میں ضرور حصّے دار رہا ہو گا جہاں ایک سو سے زیادہ کتب خانے اور اسی لاکھ کتابیں ہیں. جہاں برطانیہ اور آئر لینڈ میں چھپنے والی ہر کتاب طالب علم کو دستیاب ہوتی ہے. شکسپیر کے ابتدائی نسخوں سے لے کر نیوٹن کی ذاتی لائبریری تک، کیسا علمی خزانہ ہے یہاں. کچھ ذکروہاں کی دعوتوں کا بھی تو کیجئے. میں نے کہا. بولے. کنگس کالج کی روایتی دعوت خاصے کی چیز ہے. کالج کا سکارف اور روب پہنے استاد اور طالب علم فارمل ہال کے تین کورس ڈنر کے بعد حلقے بنا کے مشروب ہاتھ میں لئے علمی دلچسپی کی گفتگو کرتے ہیں. ایسی ہی ایک شام میں جب عبدالسلام اور پاکستان میں ان کی نا قدری کا ذکر ہوا تھا تو میری آنکھیں نم ہو گئیں تھیں. کیا یہ المیہ نہیں کہ اپنے ملک سے بیحد محبّت کرنے والے عالم کو محض ذاتی عقیدے کی بنیاد پر اس قدر و منزلت سے محروم کر دیا جا ئے  کہ جو اس کا حق تھا. عبد السلام نے ١٩٦٠ سے ١٩٧٠ تک پاکستان کی اسپیس  ایجنسی اور سائنس اور ٹیکنالوجی ادارے کے قیام اور اس کے فروغ کے لئے بھرپور کام کیا تھا . ایٹم بم بنانے کی ابتدا ان ہی کی کوششوں سے ہوئی. ١٩٧٤ میں سیاسی مفاد نے نفرت کو ہوا دی تو استعفا دے کر یورپ میں کام جاری رکھا. پاکستان کی محبّت دل سے نہ جا سکی. اٹلی میں تھیوریٹیکل فزکس کا ادارہ بنا کرپاکستان سمیت تمام  ترقی پذیر ممالک کے سائنسدانوں کی مدد جاری رکھی. ١٩٧٠ میں ہگس بوسن ذرے کی موجودگی کی علمی نشان دہی کی. جب اس کام کی تصدیق سوئزر لینڈ کے حڈرون کولیڈر میں ہگس بوسن کی دریافت تک پہنچی تو دنیا میں تہلکہ مچ گیا. عالمی انعامات اور اعزازات کی بارش ہونے لگی. ١٩٧٩ میں مشترکہ نوبل انعام ملا. دنیا بھر میں عزت و تکریم ملی سواۓ اس بد نصیب تنگ نظر سوچ سے کہ جس نے ان کے ذکر اور کام کو درسی کتابوں تک سے نکال دیا. ذاتی عقائد کو فرد کی آزادی تسلیم کرنے کے بجائے نا قدری اورتشدد کا راستہ اپنایا. المیہ یہ ہے کے اس قومی ہیرو کوزندگی میں جان کی سلامتی کا خطرہ رہا اور موت کے بعد قومی ہیرو کی حیثیت سے عزت و احترام سے محرومی کی سزا ملی .........جاری ہے www.valueversity.com2022-03-2505 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYASEER, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL CHALISWA INSHA, EPISODE 44ASEER اسیر، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چوالیسواں انشا Mamdu explores the meaning of feminism and come across the most powerful female voice of persian poetry Forugh Farrokhzad اسیر، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چوالیسواں انشا، شارق علی  بوریت کی وجہ یانی آپا کی اسکائپ پر ہونے والی فیمنسٹ سوسائٹی کی طویل میٹنگ تھی. فارغ ہوئے تو سائیکلیں لے کر سیر کو نکلے. پھولبن کے گھنے درختوں کے درمیان سے گزرتی بل کھاتی پگڈنڈیاں اور دونوں سائیکلیں ساتھ ساتھ. کوہ رمز کے دامن میں سبزہ زار پر سائیکلیں گرا کرلکڑی کی بینچ پر بیٹھ گئے. میں نے پوچھا. فیمینیزم کیا ہوتا ہے یا نی آپا ؟ بولیں. سیاسی تحریک کہ لو یا سوچ کاانداز. موجودہ یا ماضی کے سماجی روئیے اور تجربے جن کا سامنا عورتوں کو رہتا ہے اگر تنقیدی نظروں سے پرکھے جائیں تا کہ مساوی حقوق کی راہ ہموار ہو سکے تو یہ فیمینیزم ہو گا. سیاسی، معاشی اور سماجی میدان میں عورتوں کو طاقور بنانے کی عالمی تحریک. کیا میں فیمینسٹ بن سکتا ہوں؟ میں نے پوچھا. بولیں . کیوں نہیں. آزادی اور انصاف کو سب کا حق سمجھنے والے مرد بھی فیمنسٹ ہوتے ہیں. ١٨٤٨ میں نیو یارک میں سیںیکا فالزمیں ہونے والا کنونشن اس تحریک کا آغاز تھا لیکن ١٩٦٠ کے یورپی سماجی انقلاب نے اسے مزید طاقت بخشی. مشرق میں بھی کئی انفرادی  آوازیں ابھریں. کوئی مثال دیجئیے؟ میں نے بات کو طول دیا. بولیں. ١٩٣٥ میں تہران کے خوشحال خاندان میں پیدا ہونے والی فروغ فرخزاد ایک بہترین مثال ہے. ذاتی دکھ شاعری میں کچھ یوں جھلکا کے عالمگیر نسوانی المیے کی علامت بن گیا. پبلک اسکول سے تعلیم یافتہ فروغ نے مصوری بھی سیکھی . سولہ سال کی عمر میں ادھیڑ عمر پرویز شاپور سے شادی ہوئی. ایک سال بعد اکلوتا بیٹا کامیار پیدا ہوا. المیہ کہاں ہے اس میں؟ میں بے صبرایا. بولیں. یہ شادی عمروں کے فرق کے سبب طلاق پر ختم ہوئی. شخصی آزادی اور شا عری  کے لئے فروغ کوکامیار سے جدا ہونا پڑا . وہ یہ دکھ کبھی نہ بھلا سکی. ایک سال بعد اس کی نظموں کی پہلی کتاب اسیر شائع ہوئی. اسی سال ذہنی حالت اتنی مخدوش ہو گئی کہ ذہنی ہسپتال میں داخل ہونا پڑا. بہتر ہوئی تو نو مہینوں کے لئے یورپ گئی اور دوسری کتاب دیوار شائع کی. انتساب بچھڑے ہوئے شوہرکے نام تھا. پھر تیسرے مجموعے نے اسے بھرپور احتجاجی آواز کے طور پر ادبی حلقوں میں متعارف کیا. ١٩٦٢ میں اس نے جزامیوں کی زندگی پر ایک دستآویزی فلم بنائی جس کا عنوان تھا سیاہ پناہگاہ. اس فلم کو بین الا قوامی شہرت اور انعامات ملے. ١٩٦٣ میں یونسکو نے فروغ کی زندگی پر دستاویزی فلم بنائی اور ممتاز فلمسازوں نے اس کی جراتمند شا عری اور زندگی کو اپنا موضوع بنایا. پھر چوتھی کتاب تولد دگر چھپی اور آخری کتاب پرانے موسم پرنیا یقین اس کی جوان موت کے بعد منظر عام پر آ ئی . وہ اپنی ماں سے مہربان ملاقات کے بعد جیپ میں گھر سےنکلی اور ایک خوفناک حادثے کا شکار ہو کر بتیس سال کی عمر اور شاعرانہ عروج میں اس دنیا سے رخصت ہوئی. فروغ روایتی شادی میں جکڑی ہوئی ایرانی بلکہ مشرقی عورت کی مزاحمتی آواز ہے . بیوی، ماں اور طلاق یافتہ عورت کے دکھ کی علامت. کوئی نظم سنائیےاس کی. یا نی آپا کچھ دیر خاموش رہیں. پھر کوہ رمز کی سمت دیکھتے ہوئے بولیں. اس کی نظم اسیر کے ابتدائی مصرعےکچھ یوں ہیں. میں چاہتی ہوں تم جان لو، میں تمہیں کبھی گلے نہ لگا سکوں گی. تم کھلا آسمان ہو اور میں پنجرے میں  اسیر چڑیا. ہو سکتا ہے سلاخوں کے پیچھے نادیدہ ہاتھ مجھے حیران کر دے. اور میں تمہاری سمت پرواز کے لئے پر کھول سکوں........جاری ہے   www.valueversity.com2022-03-2405 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYKHAZANAY KA RAAZ, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, TENTALISWA INSHA EPISODE 43خزانے کا راز، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تینتالیسواں انشا، شارق  علی سرمئی سو ٹ سے جھلکتی آٹومیٹک گن، کالا چشمہ، فوجی ہیئر کٹ، ایک ہاتھ میں واکی ٹاکی. دوسرا ہاتھ اٹھاے وہ گورا کوریڈور میں کھڑا لفٹ کے استعمال سے مجھے  روک رہا  تھا.چیک ان کے  وقت سیکورٹی اہلکاروں اور بلٹ پروف گاڑیوں کی موجودگی نے اس افواہ کی تصدیق کر دی تھی کہ کوئی اہم امریکی اہلکار بھی اسی ہوٹل میں ٹہرا ہوا ہے. انکل پٹیل قاہرہ کا احوال سنا رہے تھے. کہنے لگے . کوئی پانچ منٹ بعد لفٹ استعمال  کرنے کی اجازت ملی .ریسپشن پر پروفیسر امر منتظر تھے. کار ہوٹل سے نکلی تو مصری نوبل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ کے شہر قاہرہ کا دل و نظر سے تعارف ہوا. ڈھلتی شام میں دو کروڑ آبادی کے شہر سے گزرے تو کچھ علاقے کراچی جیسے لگے. وہی ٹریفک کی بدنظمی. چھوٹی سڑکیں اور گاڑیوں کی بہتات. کمرے میں بھی دوری کا احساس نہ تھا . وہی دو پن کا پلگ اور ٢٢٠ وولٹ کی بجلی. امر نے بتایا. جدید قاہرہ ٩٦٩ میں تیونس کی فاطمید خلافت کے دورمیں قائم ہوا. لیکن یہاں قدیم اسلامی، بازنطینی، رومن، ایرانی اور فرعونی دور کے آثاربھی ملتے ہیں. پھر ہم قدیم درسگاہ الاظہر کے پاس سے گزرے. ہماری منزل دریا ئے  نیل کے کنارے لنگر انداز وہ فیری  تھی جہاں رقص و موسیقی کے ساتھ رات کے کھانےاور قاہرہ کے بیچ سے ہو کر گذرتے دریاےنیل میں دو گھنٹے سیر کا انتظام تھا. فیری میں داخل ہوۓ تو رات ہو چکی تھی. دریا کی لہروں کے ساتھ آہستہ خرام سیر کا آغاز ہوا. رقص اور موسیقی کے ہوش ربا مظاہرے کا مختصر سا جائزہ لیتے ہوۓ عرشے کے ساتھ لگی ٹیبل پر آ بیٹھے. قاہرہ کی روشن عمارتوں کا عکس گویا دریا کے پانی میں جھلملاتے چراغ اور پس منظر سے آتی دلکش موسیقی کی مدھم لہریں. لذیز کھانوں سے انتخاب اور گرم جوش تواضع. گفتگو حالات حاضرہ سے ہو کر فرعونوں تک جا پہنچی . امر نے کہا. شہرت کے لحاظ سے تاتنخامن جسے توت بھی کہا جاتا ہے فرعونوں کا سپر اسٹار ہے. ١٩٢٢ میں برطانوی ماہرہاورڈ کارٹر نے بادشاہوں کی وادی میں اس کی قبر جو خزانوں سے لدی ہوئی تھی دریافت کی تو دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا. توت ١٣٤٦ ق م میں پیدا ہوا تھا اور صرف نو سال کی عمر میں تخت نشین ہوا. اس نے مصری تہذیب کے عروج کے زمانےمیں نو سال حکمرانی کی اور اٹھارہ سال کی عمر میں فوت ہوا. تین ہزار سال کی گم نامی کےبعد اس کے خزانوں بھری قبرکی دریافت نے اسے عالمی شہرت بخشی. بادشاہوں کی وادی کے سب خزانے پہلے ہی لوٹے جا چکے تھے لیکن توت کی قبر مزدوروں کی رہائش گاہ کے نیچے ہونے کے سبب نظر انداز کی جاتی رہی. کارٹر وادی میں بہت سےنوادرات دیکھ چکا تھا جس پر توت کا نام درج تھا. اسے یقین تھا کہ بادشاہ بھی یہیں کہیں موجود ہے. توت کی تدفین عجلت میں اس کے جا نشین آی نے کی تھی جس کی شبیہہ مقبرے کی دیوار پر کنداں ملی تھی. کچھ سیڑھیوں کی اتفاقی دریافت نے کارٹر کوبالاخرخزانوں سے بھری قبر تک پہنچا دیا . سینکڑوں نوادرات اور قیمتی جواہرات اور سونے سے بنیں روز مرہ کے استمعال کی چیزیں جنھیں آخرت میں توت کے کام آنا تھا اب قاہرہ کے میوزیم میں محفوظ ہیں. توت کی موت بھی ایک معمہ ہے. کچھ ماہر سر پر کاری ضرب کے  ذریعے  اسے قتل کی واردات کہتے ہیں اور کچھ ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے اور انفیکشن کو اس کا سبب بتا تے ہیں.........جاری ہے www.valueversity.com2022-03-2305 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYDANA, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, BIYALISWA INSHA, EPISODE 42DANA دا نا ، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، بیالیسواں انشا  What do you mean by an enlightened person? Mamdu wonders. Does he get a satisfactory answer? Find out in this story دا نا ، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، بیالیسواں انشا، شارق  علی ویبینار سے فارغ ہوۓ تو کمپیوٹر بند کیا اور برآمدے میں آ بیٹھے. انٹرنیٹ پر ہونے والے اس مذاکرے کا عنوان تھا کامیاب زندگی . موسم خوش گوار تھا اور سامنے لان میں رنگا رنگ پھول کھلے ہوئے ، لیکن ذہن سوالوں سے پر. سب اطمینان سے بیٹھ گئے تو میں نے بحث میں استعمال ہوۓ لمبے سے لفظ کا مطلب پوچھا. یہ صاحب علم او آگہی کیا ہوتا ہے دادا جی؟ مسکرا کر بولے. ہمارے وقتوں کی مشکل اردو ہے یہ. تم آسان زبان میں اسے دانشمند کہ لو یا صرف دانا . دانا  شخص کی پہچان کیا ہے دادا جی؟ دادا جی سے پہلے بابل بول اٹھا. میں نے دیکھا تھا دا نا شخص ایک دفعہ. لمبے بال، سرخ آنکھیں، ہاتھ میں اکتارہ. نیرنگ اباد  جاتی سڑک پر پانی پلایا تھا اسے میں نے. میرے ہونٹوں  پر طنزیہ ہنسی کو نظر انداز کرتے ہوۓ دادا جی سنجیدگی سے بولے. بلکل بابل. ہو سکتا ہے وہ شخص دانا ہو. دا نا  دنیا کے ہر کونے میں اور ہر روپ میں پا ئےجاتے ہیں لیکن ذراکم کم. ممکن ہے تم اسے نیپال کی ترائی میں بکریاں چراتا دیکھو، یا شگھائی کے اسکول میں بچوں کو پڑھاتا یا سیلیکون ویلی میں میلی جینس پہنے کمپیوٹر کے سامنے یا کسی آفس میں سوٹڈ بوٹڈ میٹنگ میں مصروف. کچھ اور بتائے دا نا  کے بارے میں؟ میرا تجسس بڑھا. دادا جی بولے . کسی بھی ماحول اور معاشرت میں فکری لحاظ سے آزاد انسان کو ہم داناکہتے ہیں. ضروری نہیں کہ دانا باغی ہو. لیکن وہ مفروضوں یا سادہ لوح وضاحتوں پر مبنی روایتوں کو قبول نہیں کرتا. اپنی ذاتی رائے اور یقین کو اپنی ذمّے داری سمجھتے ہوۓ خود تشکیل دی ہوئی سوچ کے تحت فیصلے کرتا ہے. انکل نے یانی آپا سے چاے لانے کو کہا اور بات آگے بڑھائی . دانا خود اپنے آپ سے اور ارد گرد کے حالات سے  بخوبی واقف ہوتا ہے. نت نئی باتیں سیکھنے کا شوقین. بدلتی ہوئی صورت حال کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت سے لیس. یا نی آپا انکل اور دادا جی کو چاے دے چکیں توبولیں. مجھے اپنے ایک دانااستاد یاد آ رہےہیں . کوئی مشکل یا بحران ہوتا تو بھی وہ پر سکون رہتے تھے. حالات سے بے حسی برتتے ہوۓ نہیں، بلکہ پوری حسّاسیت کے ساتھ اورمشکل پرحاوی ہونے کی تدبیر کرتے ہوے. وہ بہت خوش اخلاق اور محبّت کرنے والے تھے. زندگی میں بھرپور شراکت داری کا جذبہ اور جوش تھا ان میں. دادا جی بولے. دا نا لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم انسانوں کو تمام سوالوں کے جواب میسر نہیں. لیکن جو سچائی ہمارے سامنے ہے اسے درست پس منظر میں بلا جھجھک قبول کرنا ضروری ہے. عموما وہ تخلیقی رحجان رکھتے ہیں. لکھنا، تصویر بنانا یا موسیقی تخلیق کرنا. یا صرف زندگی گزارنے کے عمل میں نئی راہیں تلاش کرنا. گفتگو ہو یا رویہ یہ تازگی یہ نیا پن ان کے یہاں صاف نظر آتا ہے. زندگی میں معنویت کی تلاش ان کے لئے اہم ہوتی ہے. یانی آپا گفتگو سمیٹتے ہوے بولیں. دانا شخص جس نے اخلاقی اصولوں کو مضبوطی سے تھام رکھا ہو زندگی کے تمام راستوں پر سےپر اعتماد گزر سکتا ہے. یوں سمجھو ممدو کے دانائی کا حصول اوراخلاقی اصولوں کی پاسداری ہی زندگی کا بنیادی جواز ہے.........جاری ہے  Listen, read, reflect and enjoy!  www.valueversity.com2022-03-2205 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYHAIRATON KA DAIS, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, IKTALISWA INSHA, PISODE 41HAIRATON KA DAIS حیرتوں کا دیس، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکتالیسواں انشا Find a glimpse of thousands of islands between Asia and Australia and a world of wonders in this story  حیرتوں کا دیس، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکتالیسواں انشا، شارق علی صبح کی دھوپ میں سنگاپور کے ہاربرفرنٹ پر واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر لگی قطار میں چینی، مالے، سفید فام اور ایشیائی سب ہی رنگ دمک رہے تھے. کچھ ہی دیر بعد ہماری فیری سمندر پر ہلکورے لے رہی تھی . منزل صرف بیس میل دور انڈونیشیا کا جزیرہ باٹام تھی. بیشتر کا مقصد ڈیوٹی فری شاپنگ اور میرا حیرتوں کے دیس کی پراثراریت کی ایک جھلک دیکھنا، اسے محسوس کرنا تھا.  آج رات ہی سنگاپور کو واپسی تھی. ایکوئیٹر کے دونوں جانب بکھرے ساڑھے سترہ ہزار جزیرے جن میں سے صرف چھ  ہزار آباد ہیں. جاوا اور سماٹرا جیسے بڑے جزیرے بھی اور گھنے جنگلوں سے ڈھکے بے نام اور غیر آباد جزیرے بھی. نایاب جنگلی جانور، پودے ، دنیا کا سب سے بڑا پھول رفلیسیہ، سینکڑوں قومیتیں، زبانیں، رسم و رواج اور پچیس کروڑ آبادی والادنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک انڈونیشیا. باٹام پہنچے تو کچھ مایوسی ہوئی. ہر طرف تیز رفتار کاروباری انتظامات. تعاقب کرتے ڈیوٹی فری شاپنگ کے سیلز ایجنٹ، اشتہارا ت اور قریبی واقع سامان سے لدے مال. منصوبے کے مطابق ٹیکسی کاؤنٹر کا رخ کیا. کچھ مالے کچھ چینی نقوش والا بائیس سالہ  عریف دن بھر کے لیے میراگائیڈ اور ڈرائیور بن کر ساتھ ہو لیا. عریف طالب علم تھا لیکن چھٹیوں کے دنوں میں ٹورسٹ گائیڈ اور بے حد با خبر. کہنے لگا. جاوا میں ١٠ لاکھ سال پہلے بسنے والے ابتدائی انسانوں کے آ ثار ملتے ہیں. پھر یہ انسانی گروہ دوسرے جزیروں تک بھی پہنچے تھے. سولہویں صدی میں والندیزی تاجروں نے ان جزیروں کو وقتی قیام کے  لیے بہترین پایا. پھر انہوں نے انہیں ایسٹ انڈیز کا نام دے کر اپنی کالونی بنا لیا. انیس سو پینتالیس میں ہم ایک آزاد ملک بنے. عریف کی تجویز پر ویھاڑا کا بدھ مندر دیکھا. یہ سینٹرل فیری ٹرمنل سے بہت قریب تھااور بدھ مت کے ماننے والوں کے لئے ایک اہم مندر. بڑے ہال میں بدھ کا مجسمہ تھا  اور ساتھ کے نسبتن چھوٹے کمروں میں رحم کی دیوی اور دیگر مجسمے. ساتھ ہی چھوٹی دوکان جس میں بدھ مت سے متعلق اشیا رکھی تھیں اور ساتھ لگا ویجیٹیرن ریسٹورنٹ. ابلے ہوئے چاول، کوکونٹ دودھ اور ہلکے مصالحوں میں پکی تازہ سبزیاں. کھانے کے دوران عریف نے بتایا. پورے انڈونیشیا میں ٤٠٠ آتش فشاں ہیں جن میں سے تقریباً ڈیڑھ سو مسلسل آگ اگلتے رہتے  ہیں. یعنی دنیا بھر کے پچھتر فیصد آتش فشاں  یہاں پاے جاتےہیں. جکارتہ جو دا رلخلافہ ہے ایک کروڑ چالیس لاکھ آبادی پر مشتمل ہے. برساتی گھنے جنگلوں سے ڈھکے جزیروں میں شیر، چیتے، ہاتھی، ا ورنگوٹان ، جا ون رائنو اور کوموڈ و ڈریگن جیسی نایاب جنگلی حیات پائی جاتی ہے. ذراعت اور تیل آمدنی کے دو بڑے ذریعے ہیں اور کرنسی روپیہ کہلاتی ہے . بیڈ مںٹن کے لیۓ دیوانگی کی حد تک پسندیدگی پائی جاتی ہے اور اکثر اولمپک اور ورلڈ کپ میں گولڈ مڈل جیتا جاتا ہے. سب سے زیادہ پر اسرار کلیموٹو آتش فشاں  کے دہانے کے پاس تین ایسی جھیلیں ہیں جن کے پانیوں کا رنگ کبھی سبز، کبھی سرخ اور کبھی کالا ہو جاتا ہے. آتش فشانی کیمیکل کا پانی سے ملاپ اس رنگا رنگی کا سبب ہیں......... جاری ہے   www.valueversity.com2022-03-2104 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYLUMBINI KA SHEHZADA, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, CHALISWA INSHA, EPISODE 40PRINCE OF LUMBINI, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST SERIAL, EPISODE 40 Enjoy the story of a prince who focused on human sorrow and became the “awakened one” under a fig tree  لمبینی کا شہزادہ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل ، چالیسواں انشا، شارق علی سنہرے دراز بال اور زہین آنکھوں والے درمیانی عمر کے گورے نے انگریزی لیکن ڈچ لہجے میں پہلے تو فلائٹ کی تصدیق کی. پھر بیک پیک ایک طرف رکھ کر بینچ پر ساتھ بیٹھ گیا. انکل پٹیل نیپال کا ذکر کر رہے تھے . بولے. کٹھمنڈو ائیرپورٹ کے جس کاؤنٹر کے سامنے یہ بینچ تھی اس پر لکھا تھا بھیرا ہوا. انڈیا نیپال بارڈر کے قریب ہمالیہ کی ترا ئی میں واقع یہ میدانی قصبہ فی الحال ہم دونوں کی منزل تھی. پھر مجھے پہاڑی مقام تانسن جانا تھا اور اسے پاپیادہ زیارت کے لئے لمبینی. گفتگو سے پتا چلا کے کوہ پیمائی اس کا شوق ہے اور بدھ مت عقیدہ. دو روز پہلے تک وہ نا مچے بازار میں ٹریکنگ کر رہا تھا اور آج ہی کٹھمنڈو پہنچا تھا. بس آئی تو ساتھ بیٹھے جہاز تک پہنچے اور چار قدمی سیڑھی چڑھ کر جہاز کے اندر. کل آٹھ مسافر، دو پائلٹ اور ایک ایئر ہوسٹس. ٹیک آف جیسے شور مچاتی منی بس فضا میں بلند ہو جائے . انجن کی آواز اتنی تیز کہ بات کرنا محال . ماہر ہوا باز نے پہاڑوں کو ہاکی کھیلنے کے سے انداز میں عبور کیا. بلندی پر پہنچے تو کاغذ کے گلاس میں تین گھونٹ پیپسی سے تواضع ہوئی. لینڈنگ ہونےتک منظر بدل چکا تھا. لہلہاتے کھیت اور میدان  جیسے لاہور یا دہلی کے مضافات. ائیرپورٹ بلکل لاری اڈے جیسا. باہر آئے تو نام کی تختی لئے نو جوان ڈرائیور پا نوں سے سرخ ہوے دانت نکالے کھڑا تھا. ڈچ کو ناشتے کی دعوت دی تووہ فورا ُ مان  گیا. چھوٹا سا شہر، مرکزی سڑک کے دونوں طرف دکانیں اور ڈرائیور کا تجویز کردہ ہوٹل. بھاپ اڑاتا چنا بھتورا ختم کر چکے تو چائے  کا دور چلا. میں نے بدھ مت کے بارے میں پوچھا توبولا. یہاں سے صرف بیس میل دور لمبینی میں ڈھائی ہزار سال پہلے شہزادہ سدھارتا پیدا ہوا.سب آسائشیں میسّر، خدمتگار حاضر، جوان ہوا تو رہنے کو الگ محل، حسین بیوی اور بیٹا. جانے کیوں سوچ کا رخ انسانی زندگی کے دکھ تھے. ضعیفی، ناتوانی، بیماری، جسمانی تکلیف اور موت.  ذہن دکھ کی گتھی نہ سلجھا سکا. پھر ایک دن ایک جوگی دیکھا اور حیرت زدہ رہ گیا. اس قدر مفلوک الحالی اور ایسا سکون. شہزادے نے ایک فیصلہ کیا. آسائش، بیوی اور بیٹے سے جدائی کا فیصلہ. گیان کی تلاش اسے قریہ قریہ لئے پھری. سارا ہندوستان چھان ما را. مایوسی جکڑنے کو تھی کہ انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھے ھوئے سوالوں کو جواب ملا اور روشنی وجود میں پھیل گئی. وہ بدھا بن گیا. چار سنہری سچ اور آٹھ ہدایتیں. دکھ زندگی کا نصیب. دکھ کا سبب انسانی خواہش . آزادی چاہو تو سچائی کو تھام لواوربدی کا مقابلہ کرو، لذت اور طاقت کی خواہش مار دو. کوئی دل نہ دکھاؤ. زندگی، اخلاقی اصولوں اور قدرتی وسائل کا احترام کرو. وہ پیشہ جو انسانوں کو نقصان پہنچا ئےکبھی اختیارنہ کرو. چٹان ہوا سے اور عقلمند ستائش یا الزام سے نہیں ہلتا. نفرت کبھی نفرت کو نہیں مار سکتی. صرف محبّت ہی ایسا کر سکتی ہے. توجہ کو مرکوز رکھنے کی مشق سے احساس اور سوچ پر فتحیاب ہو. توازن اصل کامیابی ہے. پھر اس کے چیلوں نے یہ پیغام دور دراز دنیا تک پہنچا دیے.........جاری ہے  www.valueversity.com2022-03-2005 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYDHUN KA PAKKA, INSHAY SERIAL, UNTAISWA INSHA, DADA AUR DILDADA URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 39DHUN KA PAKKA دھن کا پکّا ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، انتالیسواں انشا   The story is about a man whose stroke of pen on cheque book has the power to affect the lives and well-being of a larger number of his fellow humans than any other private individual in history  دھن کا پکّا ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، انتالیسواں انشا، شارق علی لنکن میموریل کی سیڑھیوں سے دیکھا تو دو میل لمبا میدان جس کے دونوں طرف گھنے درخت اور مشہو ر زمانہ  سمتھسونین  اوردیگر مشور میوزیم اور سرکاری عمارتیں ہیں  اور بیچ میں کئی قومی یادگاریں، ہماری نظروں کے سامنے تھا. یہ سارا علاقہ نیشنل مال کہلاتا ہےاور کیپٹول ہل پر جا کر ختم ہوتا ہے. واشنگٹن کے اسٹڈی ٹور کا ذکر تھا اور یانی آپا خوش گوار یادوں میں گم. کہنے لگیں. لنکن کی یادگار میں داخل ہوئے تو خانہ جنگی کے دوران قوم کو متحد رکھنے والے ابراہام لنکن کا سفید سنگ مرمر سے بنا مجسمہ تینتیس فٹ کی اونچائی پر براجمان تھا. گروپ فوٹو کھچوائے گئے اور چھوٹی سی ستائشی تقریر ہوئی. اس جگہ کھڑے ہوئے جہاں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے اپنی شہرہ آفاق تقریر کی تھی. میرا بھی ہے اک خواب. بل گیٹس ملا آپ سے؟ میں نے اچانک یہ سوال پوچھا. بولیں. ملی تو نہیں لیکن کہانی خوب ہے اس کی بھی. پھرمتوجہ دیکھا تو بات آگے  بڑھائی . ٦١ سالہ گیٹس بچپن میں سیا ٹل کے خوشحال خاندان کا کھلنڈرا سا لڑکا تھا. مطالعے  کا شوقین اور سائنس اور حساب میں طاق اور دھن کا پکّا. تیرہ  سال کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ سیکھی جب دنیا میں صرف بڑے سائز کے کمپیوٹر موجود تھے. جنرل الیکٹرک نے اس کے اسکول کو بڑے کمپیوٹر تک رسائی کی سہولت دی تو ٹیلی ویژن سائز کے مانیٹر کے لئے چندے کی مہم کا آغاز ہوا. گیٹس نے کمپیوٹر زبان بیسک استعمال کر کے پہلا کمپیوٹر پروگرام ٹک ٹیک ٹوک لکھا اور بڑے  کمپیوٹر تک رسائی ممکن بنا دی. پھر اس نے اپنا کمپیوٹر ورژن رسک بنایا. یہ نام اپنے پسندیدہ بورڈ گیم رسک سے لیا جس میں دنیا فتح کرنے کی جد و جہد ہوتی ہے. پھر پال ایلن سے دوستی ہوئی اور مل کر حکومتی کمپیوٹر ہیک کرنے کی کوشش میں پکڑے گئے اور پروبیشن  کاٹی. پھر اسی سرکاری کمپیوٹر ادارے نے سترہ سالہ گیٹس اور ایلن کی مدد سے اپنا سافٹ ویئر بہتر کیا اور انھیں بیس ہزار ڈ الر معاوزا ادا کیا. انکل پٹیل بھی پاس آ بیٹھے اور بولے. ہارورڈ میں داخلے کے امتحان میں اس نے سولہ سو میں سے پندرہ سو نوے نمبر لئے تھے. سٹیو بالمر جو  گیٹس کے ریٹائر ہونے کے بعد مائیکروسافٹ کا باس ہے، ہارورڈ کے دنوں میں دوست بنا. اسی دوران پال ایلن نے کالج چھوڑ کر گیٹس کو بھی یہی مشورہ دیا. ہارورڈ چھوڑ کر سافٹ ویئر کمپنی مائیکروسافٹ بنائی جو بل آخر  واشنگٹن آ گئی. ١٩٨٠ میں آ ئی بی ایم نے پرسنل کمپیوٹر لکھنے کی دعوت دی تو مائیکروسافٹ نے آپریٹنگ سسٹم ایم ایس ڈاس کا لائسنس اپنے پاس رکھا. ١٩٨٠ میں مائیکروسافٹ میں پچیس ملازم تھے اور آج ٩٠٠٠٠ سے بھی زیادہ. ایک قابل، بچوں جیسی معصومیت اور بھرپور مقابلے کی صلاحیت رکھنے والنے، دنیا کے امیر ترین گیٹس نے ٢٠٠٦ میں اپنی دولت اور وقت کا بیشتر حصّہ فلاحی کاموں مثلا پولیو، ایڈز، ٹی بی وغیرہ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے وقف کرنے کا اعلان کیا. وہ آج بھی انسانی خدمات کے اعلی ترین منصب پر فائض ہے........جاری ہے   www.valueversity.com2022-03-1904 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYFOLAD NAGAR, INSHAY SERIAL, ARTEESWAN INSHA, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORT SERIAL, EPISODE 38FOLAD NAGAR فولاد نگر ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اڑتیسواں انشا  Enjoy Jharkhand, India and the well-planned, clean and commercial city named after the steel tycoon Jamshedji in this story  فولاد نگر ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اڑتیسواں انشا، شارق علی چھوٹے سے مندر کے پاس گاڑ ی روک کر ڈرائیور نے کہا. لو جی سفر سے پہلے آپ بھی ماتھا ٹیک لو. تین فٹ  اونچی کچی پکی دیوار اور چار ستونوں پر کھڑا رنگین بیل بوٹوں سے سجا گنبد اور او پر لہراتا کیسری جھنڈا. نیچے کچھ مسافراور نذرانے کے ڈ بے کے ساتھ بیٹھا منتظم. ڈرائیور پوجا سے پلٹا تو نذرانہ ڈ بے میں ڈ ال کر روانہ ہوۓ. انڈیا کا ذکر تھا اور انکل قصّہ گوئی کے موڈ میں. کہنے لگے. دہلی سے چلے تو منزل جمشیدپور تھی . میزبان نے رانچی تک جہاز اور بقیہ سفر کار سے طے کرنے کا انتظام کیا تھا. رانچی ائیرپورٹ درمیانہ سا لگا. باہرنکلے تو مقامی کار اور ڈرائیور موجود. ائیرپورٹ سے نکلے تو سپاہی نے روکا. وی آ ئی پی کی چلتی گاڑی کے گرد درجنوں مسلح گارڈ پہلے تو ساتھ بھاگے. پھر آگے پیچھے کی جیپوں میں سوار ہو کر روانہ ہوئے تو ٹریفک کھلا. جمشیدپور روڈ کے شروع ہی میں یہ مندر تھا. جھاڑکھنڈ مشرقی انڈیا میں بہار کو تقسیم کر کے سن ٢٠٠٠ میں قائم کیا گیا. رانچی اور جمشیدپور یہاں کے دو بڑ ے شہر ہیں. راستے بھر جھاڑیوں اور درختوں سے بھری چھو ٹی پہاڑیاں ملیں. لیکن بیشتر وقت مٹیالے راستے اور میدان. راستے بھر ٹاٹا ملز کے ٹرک اور گاڑیاں نظر آتے رہے. آٹھ لا کھ آبادی کے صاف ستھرے صنعتی شہر جمشیدپور پہنچے تو طبیعت خوش ہو گئی. یا نی آپا بولیں. وہی جمشیدپور نا جو اسٹیل نگر کہلاتا ہے اور جمشیتجی نسروانجی کے نام سے منسوب بے؟انکل سے پہلے میں بول اٹھا. اور جہاں بالی ووڈ کی پریانکا چوپڑا پیدا ہوئی تھی ؟ یا نی آپا کی آنکھیں چمکیں اور انکل مسکرا کر بولے. بلکل درست. جمشیدپور پہنچےتو شام ڈھلنے کو تھی. ٹاٹا مل کی وردیاں پہنے سینکڑوں کارکن سائیکلوں پر گھروں کو جاتے ملے. پیلے ہیلمٹ سروں پر اور کھانے کا ٹفن سائیکل کے پیچھے بندھا ہوا. راستے میں جا بجا سر سبز پارک نظر آ ئے. ہوٹل شہر کے مرکز میں تھا اور بہت آرام دہ. کانفرنس روم بھی ساتھ ہی. بول  چال کی زبان ہندی یا اردو جو جی چاہے کہ لو. پچاسی فیصد آبادی پڑھی لکھی. ہرسمت ٹاٹا کا راج ہے. ٹاٹا سٹیل، ٹاٹا موٹر، ٹاٹا پاور وغیرہ. جمشتجی کی روح نہال ہوجاتی ہو گی یہ رونق دیکھ کر. کچھ اور بتائے جمشتجی کے بارے میں؟ بولے. ٹاٹا خاندان کے با نی ١٨٣٩ میں پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے  اور پینسٹھ برس کی عمر پائی . انڈیا میں صنعتی  انقلاب کا با نی کہو تو یہ ٹھیک ہو گا. پھر ہم نے ٹاٹا سٹیل کا دورہ کیا. پرتپاک خیر مقدم ہوا، پہلے چھوٹی سی فلم دکھائی گئی اور تعا رفی  تقریر ہوئی. پھر حفاظتی لباس اور چشمہ پہنے، مل کے اندر ایک طرف بنی اونچی بالکنی سے  آتشیں لوہے کے ریلے کو ایک طرف سے آتے، ٹھنڈا ہوتے، بچھتے، رول کرتے اور تقسیم ہوتے دیکھا. یانی آ پا بولیں وقت بھی پگھلا ہوا فولاد ہوتا ہے ممدو. صحیح فیصلوں کے سا نچوں میں ڈھال لو تو کار آمد ورنہ بہتا ہوا تباہ کن آگ کا دریا  .  ........جاری ہے  www.valueversity.com2022-03-1804 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYKHWAB MERTAY NAHIN, ENDURING DREAM, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 37KHWAB MERTAY NAHIN, ENDURING DREAM, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST EPISODE 37 John Brown was a a white American abolitionist who believed armed struggle was the only way to overthrow slavery. Discover his bravery and sacrifice in this story  خواب مرتے نہیں، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، سینتیسواں انشا، شارق علی کیش کاؤنٹر بند ہوتا تو ہلکی سی گھنٹی بجتی. ساتھ رکھے شوکیس میں  کوفی کے لوازمات سجے ہوے تھے اور پیچھے دیوار پرتصویری مینو. رنگین پھولدارہیٹ اور بے حد دلکش لیکن کاروباری مسکراہٹ نے پوچھا. میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟ امریکہ کے سفر کا ذکر تھا اور بیان انکل پٹیل کا. سب ہمہ تن گوش تھے. انکل نے کہا . آرڈر دے کر سیڑھیاں اتریں اور تہ خانے میں بنے نفیس ریستوران میں جا بیٹھے. دو دریائوں  یعنی پوٹومک اور شناندوہ کے سنگم پر واقع ویسٹ ورجینیا کا یہ چھوٹا سا قصبہ ہارپرس فیری کہلاتا ہے. دریا کے کنارے سر سبز سیلابی میدان میں تاریخی باغ بنایا گیا ہے. ساتھ ہی اوپر پہاڑی کو جاتی ڈھلواں سڑک.جس کے ایک طرف خوبصورت مکانوں کی قطارگویا حسن اور نفاست کا امتزاج . دوسری جانب دکانیں اور چھوٹا سا یہ خوبصورت ریستوران جس میں ہم آ بیٹھے تھے. کچھ دیرپہلے دریا کے کنارے ٹہلتے ہوئے میزبان نے کہا تھا . سنو! لہریں سرگوشی میں اپنے ہیرو کا نام لے رہی ہیں. جون براؤن. کون جون براؤن؟ میں نے پوچھا. انکل بولے. ایک با ضمیر اور بہادر سفید فام. امریکی سول وار سے ڈیڑھ سال پہلے، ١٨٥٩ میں اس نے سیاہ فام غلامی، جسے وہ گھنائونا جرم سمجھتا تھا. کے خلاف پہلے تو کئی سال پر امن جد و جہد کی. پھرمایوس ہو کران مظلوم غلاموں کو مصلح کرکے عملی بغاوت کا منصوبہ بنایا. پہلا قدم ہارپرس فیری کے ہزاروں ہتھیاروں سے بھرے اسلحہ خانے پر قبضہ تھا. اس نے سوچا، غلام ہاتھوں میں ہتھیار آ گئے تو وہ اپنی جنگ خود لڑ سکیں گے. جنوب میں ان دنوں چالیس لاکھ غلام تھے. اس کا خیال تھا کے ایک دفعہ آزادی کی مسلح آگ بھڑک اٹھی تو پورا امریکا اس لعنت سے آزاد ہو جائے  گا. براؤن اور اکیس ساتھی جن میں اس کے تین بیٹےسمیت سولہ سفید فام اور پانچ سیاہ فام شامل تھے، رات کی تاریکی میں اسلحہ خانے پر قبضے میں کامیاب ہو گئے. توقع تھی کے مقامی غلام ان کی مدد کو آ جائیں گے. لیکن ایسا نہیں ہوا. پھر براؤن اوراس کے ساتھی حکومتی میلشیا اور مقامی نسل پرستوں کے گھیرے  میں آ گئے. مقابلہ ہوا تو دو بیٹے اور کئی ساتھی  مارے گئے. جون اپنے ایک بیٹے اور چند ساتھیوں سمیت ایک انجن روم میں مورچہ بند ہو گیا. گھیراڈالے ہوے کمانڈر نے ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دیا. براؤن کے انکار پر شدید حملہ ہوا اور وہ قید کر لئے گئے. مقدمہ چلا اور اسے پانچ ساتھیوں سمیت جس میں اس کا بیٹا بھی شامل تھا، باغی قرار دے کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا. پھر یہ کہانی پورے امریکا میں پھیل گئی. وہ اس جد و جہد کے پہلے شہید اور ہیروبن گئے. ان کا خواب سب با ضمیروں کے دل کی دھڑکن بن گیا .صرف چھ سال بعد امریکی خانہ جنگی کے نتیجے میں پورے امریکا کے غلاموں نے آزادی حاصل کر لی......جاری ہے Listen, read, reflect and enjoy!  www.valueversity.com2022-03-1704 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYEDINBURGH KI GALYAN ROYAL MILE, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 36EDINBURGH KI GALYAN ROYAL MILE, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST EPISODE 36 A succession of streets forming the main thoroughfare of old Edinburgh is called Royal mile. Experience the excitement of horror tales and the fragrance of universal friendship  ایڈنبرا کی گلیاں، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، چھتیسواں انشا، شارق علی سبز رنگ کی کلٹ،  سکاٹ لینڈ کی روایتی مردانہ سکرٹ، پہنے وہ بوڑھا بیگ پائپ بجانے میں محو تھا. یا نی آپا ایڈنبرا یوتھ فیسٹیول کو یاد کررہی تھیں. کہنے لگیں. گہرے بادل اور گرتی تھمتی بارش کا مزہ لیتے رائل مایل پہنچے تو بیگ پائپر کی پر سوز دھن نے مسحورکر دیا تھا .  شہر کے قدیم حصّے کی گلیوں کا تقریباً ایک میل لمبا سلسلہ رائل مائل  کہلاتا ہے.دونوں جانب سیاہ اور سرمائی پتھروں کی پر وقار سینکڑوں سال پرانی عمارتیں ہیں . کہیں کہیں یادگاریں اور مجسمے . اور بیچ سے ہو کرگزرتی قلعے کی جانب جاتی پتھریلی اینٹوں سے بنی سڑک .بوڑھے موسیقار کی ویڈیو بنائی ، کچھ  سکے اس کے بیگ میں ڈال کر داد دی اور آگے چل دئیے.   میزبان نے چلتے چلتے یہاں سے وابستہ میگی ہنگیٹ کی خوفناک کہانی سنا ی. بچے کے قتل پر یہیں چوک میں سرعام  پھانسی کے بعد ڈاکٹر نے اسے مردہ قرار دے دیا تھا. لاش گھوڑا گاڑی پرقبرستان لے جائی جا رہی تھے کہ وہ زندہ اٹھ بیٹھی. سارا چوک لمحہ بھر میں سنسان ہو گیا. ایک جرم میں دو بار پھانسی کی سزاقانوناً ممکن نہیں .اوریوں وہ زندہ رہی. پھر برک نامی قاتل کا قصّہ جس نے سولہ بے گناہ انسانوں  کو قتل کر کے کچھ رقم کےعیوض ان کی لاشیں میڈیکل کالج میں تجربات کے لئے بیچ دی تھیں.وہ بلاخرپکڑا گیا اور سزا ہوئی. قلعے تک پہنچے  توخاصی اونچائی سے شہر کو دیکھا. ایک طرف پرنسیس سٹریٹ کے جدید شاپنگ سینٹرز تھے اور دوسری جانب سینکڑوں سالہ تاریخ سمیٹے قدیم عمارتیں. یہ قلع کئی ہزار سال پرانی ایک سو بیس میٹر اونچی آتش فشانی چٹان پر نارمن حکمرانوں نے ١٠٦٦ میں تعمیر کیا تھا. مکمل کرنے میں ٥٠٠ برس لگے. سواے مشرق کی سمت کے جہاں مرکزی دروازہ ہے،  قلعے کے تین اطراف میں قدرتی اترائی اور کھودی گئی خندق ہے جس کی وجہ سے حملہ کرنا آسان نہ ہوتا ہو گا.اس کا نچلا اور کشادہ حصّہ بیلی کہلاتا ہے جہاں عام سپاہی اور خدمتگار رہتے تھے . یہاں رہائش گاہیں، لنگر خانہ اور اسلحہ گودام ہوتے تھے. سب سے اہم اور اونچا حصّہ کیپ کہلاتا تھا جہاں حکمران محفوظ رہتے. بارہویں سے چودویں صدی میں انگریزاوراسکاٹش جنگوں کے دوران  یہ قلع کئی بارجیتا اور ہاراگیا. پھر یہ پندرھویں صدی میں اسلحہ خانہ بنا اور پہلی جنگ عظیم میں قید خانہ . میں نے قطع کلامی کی اور پوچھا . آپ نے سیکھا کیا اس بین الاقوامی  میلے  سے یہ بھی تو بتائے؟  بولیں. مختلف رنگ، نسل، مذہب اور معاشرت کے ساتھیوں کو مل  جل کر کام کرتے، اختلاف رائے رکھنے کے باوجود خوش رہتے دیکھا. اور یہ یقین ہو گیا کے کوئی نظریہ، اصول یا مذہب اگر اس آفاقی انسانی برابری، محبّت اور ہم آہنگی سے انکاری ہے تو وہ سچا نہیں ہو سکتا. زندگی کی یہ رنگارنگی تو خالق کا کمال اور اس کی رضا ہے.......جاری ہے www.valueversity.com2022-03-1604 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYTHE PRINCE BY MACHIAVELLI, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH HINDI/URDU SHORT STORY SERIAL, EPISODE 35THE PRINCE BY MACHIAVELLI Niccolò Machiavelli was a renaissance political theorist who wrote in his famous book The Prince that a ruler must be a fox and a lion at the same time.  شیریا لومڑی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پینتیسواں انشا، شارق علی پسند کی کتابیں مل جانے پر ہم بہت خوش تھے. آج جب دادا جی اور انکل نے کرن پور کا پروگرام بنایا تو میں اور یانی آپا بھی ساتھ ہو لئے. کرن پور پھول بن سے پندرہ میل دور چھوٹا سا شہر ہے جس میں موجود کتابوں کی دکانیں اکثر ہمیں وہاں لے جاتی ہیں. میونسپل لائبریری میں کچھ دیرکے لئے رکے  تو وہاں ہمارے علاوہ کوئی اور نہ تھا. ورق گردانی کرتے ہوۓ میں نے پوچھا. کیا کوئی کتاب منفی اثرات  بھی رکھ سکتی ہے دادا جی ؟ بولے. یہ سوال رینیساں کے دور میں لکھی گئی نکولو مکیاویلی (١٥٢٧-١٤٦٩) کی بدنام زمانہ کتاب دی پرنس کی یاد دلاتی ہے جس کا شمار دنیا کی دس پر اثر کتابوں میں کیا جاتا ہے. کچھ بتائے اس کے بارے میں؟ بولے. یہ فلورینس کے شہزادے کو ایک طرح سے نوکری کی درخواست کے طور پر پیش کی گئی تھی اور مصنف کے انتقال کے پانچ برس بعد چھپی. اتنی متنازع  کے بہت جلد ہی اس نے عالمی شہرت حاصل کر لی. یہ حکمرانوں کے لیۓ آسان اور عملی انداز میں لکھا گیا ہدایت نامہ ہے. انکل نے کہا. مکیاویلی اطالوی تاریخ دان، فوجی، سیاسی مشیر اور لکھاری تھا. سیاست اور تاریخ  پر اس کی گہری نظر تھی. لکھتا کیا ہے وہ اس کتاب میں؟ میں نے پوچھا. دادا جی بولے. سیاست کے سنگدل داؤ پیچ. مثلاً وہ لکھتا ہے کہ  شہزادے کو صرف اسی صورت میں رحم دل ہونا چایے جب یہ اس کے مفاد میں ہو. ورنہ عوام کی محبّت نہیں ان کے خوف کو حکمرانی کا ذریعہ بنانا چایے. حکمران کا بیک وقت شیر اور لومڑی ہونا ضروری ہے. لومڑی جو بچھے ہو ئے جال سے بچ سکے اور شیر جو حملہ آور بھیڑیوں سے نمٹ سکے. صرف شیر ہونا کافی نہیں. حقیقت پسند قائم اور مثالیت پرست برباد ہو جاتے ہیں. وہ سیاسی کامیابی کو اخلاق اصولوں کی پاسداری سے زیادہ اہم بتاتا ہے. حتیٰ کے اقتدار مستحکم رکھنے کے لئے پچھلے حکمرانوں کی نسل تک مٹا دینے کی ہدایت کرتا ہے. ظاہر ہے کہ یہ متنازع خیالات ہیں لیکن وہ حمایت میں بھرپور تاریخی دلائل دیتا ہے. انکل بولے. اس کے یہاں اخلاقیات صورت حال کے تابع ہیں اور کامیابی کے لئے اصولوں پر سمجھوتا جائز. گویا مکیاویلن سوچ سے مراد خواہش میں اندھی، پر فریب اور ظالمانہ طرزحکمرانی ہے. بدقسمتی سے سب ہی سیاستدان مکیاویلی سے متفق نظر آتے ہیں. ایک مثال امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ہے  جس نے خود کو قانون سے بالا تر سمجھا تھا. یانی آپا بولیں. میری رائے میں کامیابی کے لئے مکیاویلی حربے اور سوچ کوتاہ نظری کے سوا کچھ بھی نہیں. دیرپا کامیابی سقراط جیسی زندگی اور اس کے بیان کردہ آفاقی اخلاقی اصولوں کی  پاسداری میں ہے  ..... جاری ہے www.valueversity.com2022-03-1503 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYMONTREAL KA BHIK MANGA, MONTREAL VAGRANT. GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, DADAAUR DILDADAH URDU/HINI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 34Montreal Ka Bhik Manga MONTREAL VAGRANT. GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 34 Late night in the cultural capital of Canada where John Lennon wrote his masterpiece “Give Peace a Chance” and Nadia Comaneci won the hearts of so many, here comes a vagrant. Enjoy the story!  مونٹریال کا بھک منگا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چونتیسواں انشا، شارق علی انکل پٹیل کینیڈا کے سفر کا احوال سنا رہے تھے. کہنے لگے. شہر کے مرکز میں واقع چائناٹاؤن کے بس اسٹاپ پر ائیرپورٹ کوچ رکی تو رات کا کوئی ایک بجا ہو گا. ڈرائیور نے سامنے نظر آتے ٹریولاج کے نیون سائن کی طرف اشارہ کیا اور دروازہ کھول دیا. شکریہ ادا کر کے اترا تو مونٹریال بچپن کی یادیں سمیٹے میرے قدموں  تلے تھا. ١٩٧٦ کے اولمپکس میں نادیہ کومانیچی نے تین گولڈ مڈل اور کروڑوں دل جیتے تھے. جون لینن کا مشہور عالم نغمہ "امن کو ایک موقع دو" اسی شہر میں لکھا گیا تھا. فرانسیسی بولتا کینیڈا کا دوسرا بڑا شہر جہاں پچیس درجے منفی سردی اور دو مہینے برف معمول کی بات ہے. ہیروشیما کوبہن  کہنے والا مونٹریال. بیگ تھامے میں ٹریویلوج میں داخل ہوا تو ریسپشن پر موجود سوٹ پہنے گورے سے نوجوان نے پہلے فرانسیسی آزمائی. گم سم دیکھا تو انگریزی میں خوش آمدید کہا. فارم بھرنے لگا تو نام دیکھ کر اپنے مینیجر اور مراکشی ہونے کا انکشاف کیا اور مسکراتے ہوئے کمرہ اسٹینڈرڈ سے کو ئینس سویٹ میں اپ گریڈ کر دیا. نقشہ نکل کر بینک، پوسٹ آفس، شاپنگ سینٹر کے علاوہ قریبی مسجد کی نشاندہی بھی کی. سامان کمرے میں رکھ کر ڈائننگ ہال پہنچا تو دروازہ بند. ریسپشن بھی خالی. بھوک سے برا حال تھا. بہار آ کر سڑک عبور کی اور ایک گلی کے آخر میں کچھ روشنیوں کے تعاقب میں چلنے لگا. مونٹریال نہ صرف زمین کے اوپر آباد ہے بلکہ دنیا کا سب سے بڑا زمین دوز نظام اس کی وجہ شہرت ہے. بیس میل لمبے بجلی اور ایئر کنڈیشننگ سے آراستہ  زمین دوز راستے مختلف شاپنگ سینٹر ، بینک ، سرکاری دفاتر، پوسٹ آفس، یونیورسٹی، اپارٹمنٹس اور میٹرو اسٹیشن کو آپس میں ملا ے رکھتے  ہیں. سردیوں میں پانچ لاکھ افراد یہ نظام استعمال  کرتے ہیں. چلتے چلتے ایک معمولی سا ریستوران کھلا ہوا دکھائی دیا. پیزا کا آرڈر دے کر میں قریبی میز پر بیٹھا ہی تھا ایک ساڑھے چھ فٹ  لمبے، گنجے سر سرخ آنکھوں والے سفید فام نے کان کے نزدیک آ کر سرگوشی کی. کیا ایک پیزا کی مہربانی ہو سکتی ہے، پلیز. میں اس کے کپڑوں کی بو اور منہ سے نکلتے بھبھکوں سے ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ دبلی پتلی چار فٹ دس انچ کی چائنیز ویٹریس میز کے قریب آئی اور ڈپٹ کر بولی. کتنی بار کہا ہے پیٹر. گاہکوں کو پریشان مت کیا کرو. پھر انگلی دروازے کی طرف اٹھا کے چیخی. نکلو، میں کہتی ہوں دفع  ہو جاو فورا. میں سہم گیا. بھک منگے کا ایک چھانپڑ چائنیز غصّے کوعالم بالا میں پہنچا سکتا تھا. پیٹر سر جھکائے  شرارت کے دوران پکڑے گئے بچے کی طرح ریستوران سے باہر نکل گیا. پیٹ کی آگ بجھا کر باہر آیا تو پیٹر دروازے سے کچھ دور سرد رات میں ایک کونے میں بیٹھا اونگھ رہا تھا. رحم دلی کی تیزہوائیں چلنے لگیں. پھر خیال آیا کہ میں نے مدد کو پرس نکالا تو یہ کہیں چاقونکال کر پرس سمیت زمین دوز نہ ہو جاتے. خدشات اور میں تیز قدموں سے ٹریویلوج کی جانب چل دیے ..........جاری ہے  www.valueversity.com2022-03-1404 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYBASANT KITE FESTIVAL, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 33BASANT KITE FESTIVAL, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 33 Basant marks the commencement of spring season. loved and celebrated by people of all faiths across the geographical boundaries of Indo Pak. Enjoy the story of peace and love! آئ بسنت، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل،  تینتیسواں انشا، شارق علی سرسوں کے کھیت سے جڑے سبز میدان میں ھم عارضی ٹینٹ لگا چکے تھے. صبح  کی نرم دھوپ اور تازہ ہوا میں ناشتے کا انتظار تھا. ٹینٹ گاجر کے حلوے اور زعفرانی زردے کی خوشبو سے مہک رہا تھا. نصیبن بوا کڑاہی سے گرم پوریاں اتار کر آلو ترکاری اور حلوے کی ڈ شوں کے پاس پڑی چنگیرمیں رکھتی جاتیں. میں پیلی ٹی شرٹ  اور بابل سفید کرتے پر سرسوں رنگ لاچا پہنے دن چڑھنے کے بے چینی سے منتظر تھے. دادا جی اور انکل زرد پگڑیاں پہنے ٹینٹ میں داخل ھوۓ . پیچھے رنگین لہریوں پر ہاتھ کے کام والا ڈریس اور دونوں ہاتھوں میں پیلی چوڑیاں پہنے یانی آپا تھیں. انکل نے کہا. بھئی ناشتے سے پہلے نیرنگ اباد سے منگوائی پتنگیں دیکھ  لو. باہر آئے تو چارپائی پر رنگا رنگ پتنگیں اور چرخیوں میں لپٹی ڈور، جیسے پھولوں سے سجا گل دستہ . میری اور بابل کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا. میں نے پوچھا.  دادا جی پہلی پتنگ کب اڑائی گئی؟ کہنے لگے. ریشم اور بانس سے بنی پہلی پتنگ غالباً تین ہزار سال پہلے چین میں اڑائی گئی. پھر یہ جاپان اور دیگر ایشیائی ملکوں تک پہنچی . پہلے تو پتنگیں اڑانا اچھی فصل اور بلا ٹالنے کی مذہبی رسومات کا حصّہ تھیں. پھر عوام میں ہر دل عزیز ہو کر سال بھر جاری رہنے والا کھیل بن گئیں. سائنسدانوں نے بھی ان سے خوب کام لئے. موسم کی کیفیات، پرواز کے اصول، اور لیو نارڈوڈاونسی نے اسے دریا کی چوڑائی ناپنے کے لئے استعمال کیا. ١٩٠١ میں مارکونی نے بحر اقیانوس  عبور کرنے والا پہلا ٹیلیگرافیک پیغام پتنگ اڑا کر بھیجا تھا. انکل بولے. کیوں نہ ناشتہ کر لیا جائے . پھر مزے دار ناشتے سے پورا انصاف ہوا. انکل نے کہا. آج سے ننانویں سال پہلے رنجیت سنگھ اور ملکہ مورن سرکار کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اچھی فصل اور آمد بہار کا یہ جشن مذہب اور عقیدوں کی کھینچی لکیروں سے بے نیاز باد نسیم کے جھونکوں کی طرح ہر سمت میں پھیل جائے گا. پتنگیں آسمانوں میں اور ڈھول کی تھاپ پر انسانی جذبے دھرتی پر رقص کریں گے. درختوں پر ڈ لے جھولوں میں لڑکیاں اور فضاؤں میں نغمے ہلکورے لیں گے. ہر طرف قہقہے اور بو کا ٹا کا شور ہو گا. دادا جی بولے. یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ گنجان شہروں کی چھتوں پر بد احتیاطی اور مہلک ڈور کا استعمال ہر سال بہت سی بے گناہ جانیں لے لیتا ہے. اس افسوسناک صورت حال پر قابو پانا حکومتی ذمے داری ہے. بسنت جیسی عوامی امنگوں پر پابندی اس کا حل نہیں. پھر ہم پتنگیں لئے میدان کی سمت بڑھے تومیں نے کہا. کتنے مزے کی بات ہے کہ عین اسی وقت لاہور، دہلی، امرتسر اور قصور کا آسمان پتنگوں سے ایک ساتھ رنگین ہو گا. یانی آپا بولیں. خار دار تاروں سے بنی سرحد اس بار بھی عوام کے دلوں میں بسی محہت اور بہار میں کھلنے والے پھولوں سے ہار جائیں گی......جاری  ہے   www.valueversity.com2022-03-0804 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYAN ORANGE TRODDEN BY DIRTY BOOT, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 32On the West lane of Hampstead, London, Dada Ji comes across Animal Farm and Mamdu learns about the british political allegorical novelist George Orwell. Enjoy the story!  جوتوں تلے سنگترا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، بتیسواں انشا، شارق  علی دادا جی طالب علمی کا زمانہ یاد کر رہے تھے. کہنے لگے. جن دنوں میں لندن کے علاقے ہمپسٹیڈ میں ایک انتہائی چھوٹے کمرے میں پیئینگ گیسٹ تھا، میری واحد تفریح ویسٹ لین پر پرانی کتابوں کی تلاش تھی . اسکالر شپ اتنی قلیل کے کتاب خرید لو تو ہفتہ بھر پھل اور میٹھے کا ناغہ. ایک دن اینیمل فارم نامی ناول لئے گھر لوٹا تو لینڈ لیڈی نے بتایا کہ جارج اورول غالیبن  ١٩٢٩ میں ہمپسٹڈ میں کتابوں کی دکان پر اسسٹنٹ تھا. کون جارج اورول ؟ میں نے پوچھا. بولے. عالمی شہرت یافتہ صحافی اور ناول نویس. ١٩٠٣ میں بنگال میں پیدا ہوا. ایک سال کی عمر میں باپ کے ساتھ انگلینڈ واپس آیا. خاندانی سرپرستی سے محرومی کے باوجود وہ ایٹن کالج کا ہونہار طالب علم تھا. تعلیم کے بعد ١٩٢٢ میں برما کی برطانوی پولیس کی چھ سالہ نوکری نے اسے سامراجیت کے گھناونے چہرے سے رو شناس کیا . نوکری سے استعفا دے کر تمام عمر اس کا قلم ظلم سے نفرت کرتا رہا. پھر کئی سال لندن اور پیرس میں بے روزگاری یا قلم کی مزدوری سے روکھی سوکھی. شاید ہمپسٹیڈ میں دربدری اور فاقوں کے دوران ہی وہ ٹی بی کا شکار ہوا ہو. اینیمل فارم کی کہانی کیا ہے دادا جی؟ مسکرا کر بولے. تم نے کبھی سوچا کہ فارم میں رہنے والے جانور ہم انسانوں کے ظلم کو کس نظر سے دیکھتے ہوں گے؟ اگر بغاوت پر آمادہ ہو جائیں تو کیا کچھ ممکن ہے؟ مینور فارم کے جانوروں کی بغاوت اس اصول پرکی گئی تھی کہ سب جانور برابر ہیں. کہانی بڑھتی ہے تو اس اصول کے تضادات سامنے آتے ہیں. یہ کتاب فکر انگیز بھی ہے اور اداس کر دینے والی بھی. اورول بہت سادگی اور مہارت سے بظاھر جانوروں کی کہانی میں روسی انقلاب اور سٹالن کے دور کا ظلم اور انسانی صورت حال کا کلاسیکی بیان کرتا ہے. یانی آپا بھی پاس آ بیٹھیں اور بولیں. سوشلسٹ ہونے کے ناطے اس نے اسپینش سول وار میں شریک ہونا ضروری سمجھا تھا. وہاں اس نے کمیونسٹ پارٹی کو اپنے ہی کارکنوں کے ساتھ غداری کرتے دیکھا. اسی دوران ایک فاشسٹ کی گولی اس کی گردن پر لگی لیکن وہ بچ گیا. ١٩٤٠ کے بعد اسے تب خوش حالی میسّرآئی جب اس نے نیو انگلش ویکلی میں کتابوں پر تبصرہ لکھنا شروع کیا. پھر بی بی سی کی ایسٹرن سروس میں ملازمت کی. کام یہ تھا کہ انگریز سامراجیت کے لئے ہندوستانی حمایت حاصل کرنے کے لئے پروپوگنڈا مہم چلائی جا ئے  . وہ اس دور کو دکھ اور شرمندگی سے یاد کرتا ہے. کہتا ہے " آمدنی بہت اچھی تھی لیکن یوں لگتا تھا جیسے میں گندے جوتوں تلے آیا ہوا سنگترا ہوں". ضمیر کی آواز پر ١٩٤٣ میں اس نے یہ نوکری بھی چھوڑ دی . ١٩٤٥ میں اینیمل فارم کی اشاعت نے اسے عالمی شھرت سے ہمکنار کیا . ١٩٤٩ میں اس نے اپنی دوسری مشہور کتاب نائینٹین ایٹی فور لکھی. وہ صرف ٤٧ سال کی عمرمیں غربت کے دنوں کی جان لیوابیماری ٹی بی کا شکار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوا......جاری ہے www.valueversity.com2022-03-0604 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYTEA FREAKS, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 31TEA FREAKS, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 31 Sri Mongol is a beautiful tea garden near Sylhet in Bangladesh. A perfect setting to review human passion to consume tea. Have a cup of tea and enjoy the story!  چائے کے رسیا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اکتیسواں انشا، شارق علی شیشے کے گلاس میں گرم چائے کی تیز اور ہلکے رنگوں کی سات تہیں صاف دیکھی جا سکتی تھیں. یہ رنگا رنگی آخری گھونٹ تک برقرار رہی. انکل پٹیل بنگلہ دیش کے سفرکی روداد سنا رہے تھے. بولے. سلھٹ کے قریب چائے کے جس باغ کے ریسٹ ہاؤس میں ہم ٹہرے ہوئے تھے، وہ سری مونگول کہلاتا ہے. دور تک دکھتی سرسبزوشاداب پہاڑیوں پر ہلکورے لیتے نشیب و فراز اور ان پر لگے یکساں قامت چائے  کے درخت اور کام میں مصروف مقامی لڑکیاں. اگلے روز ہم قریبی لاوا چاراجنگل کی سیر کو نکلے.کم گھنے جنگل کی کچی گزرگاہ کے دونوں طرف لگے کٹھل کے درخت. کہیں کہیں لٹکتے پھل اور پاس ہی موجود اکا دکا بندر.پورا جنگل جا بجا بکھرے لیموں کے درختوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا. سبز گرگٹ نے ہمیں دیکھ کر رنگ بدلا تواسے ڈھونڈنا مشکل ہو گیا. واپسی پر ربڑ کے درختوں کے باغ میں جنگلی پھولوں کے گل دستے بیچتے غریب بچے ملے. شام ہوئی تو میزبان سات تہہ والی مشورمقامی چائے پلانے اس ہوٹل میں لے آئے تھے.ہوٹل والا بند کمرے میں خفیہ چائے بناتا اور گاہکوں کے استفسار پر مسکراہٹ اور پر اسرار خاموشی سے کام لیتا. چاے کا استعمال پہلے پہل کب شروع ہوا ؟ میں نے پوچھا . دادا جی نے چاے کا کپ سامنے میز پر رکھا اوربولے. کہتے ہیں پانچ ہزار سال پہلے چین میں شین ننگ نامی بادشا درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ ملازم نے پینے کے لئے ابلا ہوا پانی پیش کیا. کمیلیہ سینسس نامی درخت کے چند پتے ٹوٹ کر پیالےمیں آ گرے. بادشاہ نے پتوں ملا گرم پانی پی کرپسند کیا اور یوں چائے پینے کی روایت کا آغازہوا. آٹھویں صدی عیسویں میں لیو یو نامی چینی شخص نے صرف چائے کو موضوع بنا کر ایک کتاب لکھی. نام تھا کلاسیکی چائے. پھرجاپانی بدھسٹ جو چین تعلیم حاصل کرنے گئے تھے واپسی پر یہ کتاب اور چائے اپنے ساتھ جاپان لے آے.وہاں چائے پینے کی یہ رسم ایک روحانی تجربہ بن گئی. انکل نے کہا . یورپ میں چائے کا استعمال نسبتاً دیر میں یعنی سولہویں صدی میں پرتگالیوں نے شروع کیا جو مصا لہوں کی تجارت کی ناطے مشرق سے زیادہ قریب تھے. لیکن تجارتی لحاظ سے ولندیزی جاوا سے چائے بحری جہاز میں پہلی باریورپ لاۓ تھے  . پھر چائے پینا ہالینڈ بلکہ یورپ میں امرا کا فیشن بن گیا. یا نی آپا نے ٹی بیگ کپ سے نکالا اور بولیں. لندن میں پہلا کافی ہاؤس ١٦٥٢ میں قائم ہوا جس میں صرف فرمائش پر بیش قیمت چائے پیش کی جاتی تھی. چارلس د ویم کی پرتگالی بیوی کیتھرین جو چائے کی رسیا تھی، کی دیکھا دیکھی چائے پینا شاہی خاندان اور امرا میں مقبول ہوتا چلا گیا. ایسٹ انڈیا کمپنی نے ١٨٣٩ میں آسام میں چائے کی کاشت کا آغاز کیا. اگلے تیس برسوں میں آسام اور سیلون کی عمدہ چائے نے انگریزوں کو اس تجارت میں چین پر برتری دلا دی. اور ہاں، بیسویں صدی کے آغاز میں امریکا میں پہلی بار ٹی  بیگ کا استعمال ہوا تھا........جاری ہے   www.valueversity.com2022-03-0504 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSCHOOL BELL, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST SERIAL, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 30Education is a dream not a fundamental right n the developing world. The past and the present is bleak but the future is bright  گھنٹی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تیسواں انشا، شارق علی گھنٹی بجی اور پھول بن پرائمری اسکول کے بے چھت اور کچی پکی دیواروں والے کمروں سے بچے شور مچاتے ہوۓ نکلے اور پلک جھپکتے تتر بتر ہو گئے اورعمارت بھوت بنگلہ لگنے لگی. یانی آپا، بابل اور میں نے استانی صاحبہ کا شکریہ ادا کیا اور اجازت لی. قصباتی تعلیم کی صورت حال پر بلاگ لکھنے کے لئے یانی آپا کا یہاں ایک دن گزا رنا ضروری تھا. بابل نے اسی اسکول سے پرائمری پاس کی تھی اور استانی صاحبہ سے اجازت کا ذریعہ وہ ہی ثابت ہوا تھا. گھر پہنچے تو دادا جی اور انکل برآمدے میں چائے اور بسکٹ سامنے رکھے گویا ہمارے ہی منتظر تھے. موضوع  تعلیمی پسماندگی  ہو تو یانی آپاجذباتی ہو ہی جاتی ہیں. تقریری انداز میں بولیں . تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق، پرورش کی بنیادی ضرورت ہے، جیسے غذا، لباس، گھر، خاندان اور پیار. میں نے شرارت بھری سنجیدگی سے آگ مزید بھڑکائی. میں تو قائل ہوں لیکن ان دوستوں کو کیا سمجھاؤں جو پوچھتے ہیں تعلیم کا فائدہ؟ دادا جی بولے. تعلیم نہ ہو تو زندگی اور دنیا ادھوری تصویر ہیں ممدو میاں . ذہن کی کھڑکی کھلے تو حقیقی منظر اور تازہ ہوا سے ملاقات ہوتی ہے. تمھارے دوست شا ید روایتی تعلیم کے گھسے  پٹے طریقوں سے بے زار ہیں. انکل بولے. بر صغیر کا موجودہ نظام تین سو سال پہلے انگریز سامراج نے مرتب کیا تھا. اسے  بابو اور کالے صاحب درکار تھے جو راج قائم رکھنے میں مددگار ہو سکیں. چھوٹے بڑے کل پرزے جو لکھنا، پڑھنا اور بنیادی حساب جانتے ہوں.اوربا آسانی ایک علاقے کی بیوروکریسی  مشین سے دوسری مشین پر منتقل کیے جا سکتے ہوں. فیصلہ سازی، روشن خیالی، تخلیقی قوت اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی صلاحیت بالکل غیر ضروری تھی . سانچا اتنا مضبوط تھا کہ آج بھی ویسے ہی پرزے تیار ہو رہے ہیں بلکہ اب تو ناقص مال. یانی آپا بولیں. آج کی دنیا ایک انقلاب آفرین دنیا ہے. سستی دستی کمپیوٹر ڈیوائسز تک رسائی بہت جلد عام ہونے کو ہے. لکڑی کی تختیوں کی طرح یہ ان قریب سب طالب علموں کے ہاتھوں میں ہوں گی . لکھنا، پڑھنا اور حساب کی گتھیاں سلجھانا، مختلف زبانیں جاننا، دل چسپ ویڈیو گیمز کی مدد سے با آسانی سیکھا جا سکے گا. اسکولوں، دفتروں، بازاروں، ہسپتالوں کی شکل اور کام کرنے کے طریقوں میں ایسی انقلابی تبدیلیاں رو نما ہوں گی جنھیں کوئی سامراجیت نہ روک سکے گی. آنیوالا کل تخلیقی صلاحیتوں کی فتح اور ذہن کی آزادی کا زمانہ ہوگا..........جاری ہے \ www.valueversity.com2022-03-0353 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYDREAM TRAIN TRIP, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST SERIAL, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 29If you love train journey, this story is for you! ریل کی سیٹی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، انتیسواں انشا، شارق علی سیٹی بجاتی ریل سرنگ سے باہر نکلی اور ندی پہ بنا پل عبور کر کے ہلکا سا موڑ مڑی اور پھول بن کے اسٹیشن پر آ کھڑی ہوئی. سیب کے جن درختوں کے نیچے ہم بیٹھے ہوئے تھے وہ مقام اتنی بلندی پر تھا کہ وادی کا بیشتر حصّہ صاف دکھائی دیتا تھا.صبح کوہ رمز کی سمت سیر کو نکلے تو  کچھ ہی دیر بعد دادا جی کی سانس پھولتی دیکھ کر انکل نے  کچھ دیر یہاں رکنا مناسب سمجھا تھا. یا نی آپا بولیں. ریل کی سیٹی بھی کیا ملا جلا سنگیت ہے. الوداع، خوش آمدید، ھجر ، ملاپ، آغاز اور انجام، سب ہی رنگ ہیں اس میں. انکل نے کہا. بچپن کے کینوس پر ریل کے سفر کی تصویر بناؤں تو بابو کی سفید وردی، قلی کی لال قمیض، پلیٹ فارم کی سترنگی چہل پہل کے رنگوں میں سیٹی اور انگڑائی لے کر جاگتے انجن کے پہیوں کی کھٹ کھٹ بھی شامل  ہو جاتی ہے. بلکہ ایک بے چین کر دینے والی مہک بھی. جیسے پراٹھوں، بھنے قیمے اور آلو ترکاری کا ٹفن بس ابھی کھلا ہو. دادا جی مسکرائے اور ریل کی پٹڑی کی طرف دیکھتے ہوۓ بولے. ریلوے کا نظام تو ١٨٢١ میں ایجاد ہوا. چار سال  تیاری کے بعد پہلی ریل ١٨٢٥ میں اسٹاک ہوم  اور ڈارلنگٹن کے درمیان چلی. دنیا میں انقلاب آ گیا. یہ جادو برصغیر بھی پہنچا. انگریز معاشی، سیاسی اور فوجی گرفت مضبوط کرنا چاہتے تھے اور کلکتہ بمبئی کے تاجر تجارت کا فروغ. کہتے ہیں ٹیگور کے دادا دوارکا ناتھ نے کلکتہ سے ٹرین چلانے کے لئے بڑی رقم خرچ کی تھی . پہلی باقاعدہ ٹرین ١٨٥٣ میں بمبئی اور تھانہ کے درمیان چلی. یا نی آپا نے ادھ پکا سیب شاخ سے توڑا اور بولیں. بس چلے تو امتحان کی فکر چھوڑوں اور سلی گری سے دارجلنگ جاتی ٹرین میں سوار ہو جاؤں. میدانوں، چائے  کے باغوں، ٹیک کے جنگلوں، سر سبز وادیوں اور ہمالیہ کے دلکش نظارے جیسے کنچن جنگا کی چوٹیاں دیکھوں. میں نے آ ئی پوڈ  کا پاور آف کیا اور بولا. درجیلنگ سے واپسی پر کیا ہی اچھا ہو کہ میں اور آپ ناروے چلیں. اوسلو سے برگن لائن نامی ٹرین میں بیٹھ کر شمالی یورپ کے برف پوش پہاڑوں، ان میں بنی سرنگوں کی بھول بھلیوں اور راستے میں بکھرے  برفانی گلشیر کے حسن سے آنکھوں کو سیراب کریں. پھر میں نے مڑ کر دادا جی سے پوچھا . ٹرین کے سفر سے جڑا آپ کا کوئی خواب؟دادا جی کچھ اداس ہو کر بولے. اب تو یہ خواب پورا ہونا مشکل ہے. خیبر پاس میں بیٹھ کر وقت اور تاریخ کے درمیان سے ہو کر گزرنا. پشاور سے لنڈی کوتل تک آگے پیچھے لگے بھاپ کے انجنوں کے بیچ میں بس تین ڈبے. سفر صرف ٣٢ میل کا. لیکن اس دوران خطّے کی ہزاروں سالہ تاریخ کے گواہ سنگلاخ پہاڑوں میں چونتیس سرنگوں اور با نوے پلوں پر سے گزر کر ساڑھے تین ہزار فٹ کی بلندی پر اپنی منزل لنڈی کوتل پہنچنا. صد افسوس کے سیلابوں اور حکمرانوں کی کوتاہ نظری کے سبب ٢٠٠٦ کے بعد یہ یادگار سفر ممکن نہیں رہا .........جاری ہے   www.valueversity.com2022-03-0204 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYINUKA, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 28Inuka is the star of the Frozen Tundra of Singapore Zoo. In this story, enjoy the life of this polar beer with him in Arctic, his natural habitat.  انوکا ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل. اتھائیسواں انشا، شارق علی ہم دونوں نے ناک سے ناک ملی قربت میں ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا. یا نی آپا پچھلے سال سنگا پور میں گزاری چھٹیوں کا دلچسپ احوال سنا رہی تھیں. شفاف شیشے کی دیوار کے ایک طرف ہم تماشائی تھے اور دوسری جانب یخ پانی سے بھرے تالاب میں نیچے اوپر تیرتا، غوطے لگاتا انوکا جو ایک لمحے کو میرے سامنے شیشے سے ناک لگاتےآ کھڑا ہوا تھا. سنگاپور زوکا ایک گوشہ پولر بیر کے قدرتی ماحول کے مطابق فروزن ٹنڈ را کہلاتا ہے. چھوٹا سا مصنوعی  آرکٹک، انو کا وہیں پیدا ہوا تھا. وہ کسی گرم ملک میں پیدا ہونیوالا پہلا برفانی ریچھ  ہے. پیدا ہوا تو وزن دو سنگتروں کے برابر تھا اور اب تیئیس سال بعد ساڑھے پانچ سو کلو وزنی، دنیا کا سب سے بڑا گوشت خور جانور. روزانہ ٣٠ کلو گوشت غذا. مچھلی، سبزیاں اور پھل اس کے علاوہ. سفید بالوں اور موٹی کھال کے نیچے چار انچ چربی کی تہہ جو جسم کو برفانی صحراؤں اور جمے ہوۓ سمندروں میں بھی گرم رکھتی ہے. رکھوالے نے جب پانچ کلو وزنی زندہ مچھلیاں پانی میں پھیکیں تو انوکا  کا ماہرانہ تعاقب اور ان زندہ مچھلیوں کا شکار قابل دید تھا. انوکا کا یہ لنچ ٹائم شو دیکھنے سے پہلے ہی میں پولر بیئر سے متعلق کتابچہ بہت غور سے پڑھ چکی تھی. ہوٹل پوھنچے تو تھکن اور نیند. اس رات ایک عجیب خواب دیکھا. کسی طرح چڑیا گھر میں جوکر جیسی زندگی گزارنے سے آزاد ہو کر اب انو کا اپنے ملک آرکٹک میں ہے. ہمارا ساتھ اور دوستی جاری ہے. میں سکیٹس پہنے اور وہ ننگے پاؤں آرکٹک کے برفانی صحرا میں میلوں آوارہ گردی کرتے ہیں. برف کی مختلف صورتوں، بدلتی کیفیات اور بے مثال قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں . انو کا ایک میل دور ہی سے سیل مچھلی کی بو سونگھ لیتا ہے. پھر ہم آرکٹک کے یخ پانیوں میں تیرتے ہوے برفانی چبوتروں پر بلکل ساکت ہو کر بیٹھ جاتے ہیں. انو کا خاموشی سے انتظار کرتا ہے. انوکا ہی کی جسامت کی سیل مچھلی جب  سانسیں  لینے کے لئے پانی کی سطح سے اوپر آتی ہے تو وہ جھپٹ کر شکار کو اپنے جبڑے میں موجود بیالیس خنجر نما دانتوں میں دبوچ لیتا ہے. پھر انو کا اور اس کے ساتھی اپنی اس محبوب ترین غذا سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں. اور پھر اگلے شکار کی تلاش میں آرکٹک کے برفانی صحرا میں سینکڑوں میل تن تنہا آوارہ گردی اور برفانی پانیوں میں غوطہ زنی کرتے ہیں. پھر ایک سرد چاندنی رات میں ان کے ساتھ بیٹھے میں انوکا اور اس کے ساتھیوں کے دکھ، ان کی اداسی سے متعارف ہوتی ہوں. موسمی تبدیلی آرکٹک کے برفانی صحراؤں اور سمندروں کو دھیرے دھیرے پگھلا رہی ہے. ان آزاد شکاریوں کے لئے افزائش اور شکار کی جگہ تنگ ہوتی چلی جا رہی ہے. وہ اس دنیا میں اب صرف دو لاکھ باقی بچے ہیں. ان کے کتنے ہی ساتھی شکار کی کمی کے باعث برفانی صحراؤں اور یخ پانیوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں..........جاری ہے   www.valueversity.com2022-03-0104 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYTHE FIRST SCIENTIST, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST SERIAL, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 27Enjoy the story of Aristotle. Father of modern science, one of the greatest Athenian philosophers, pupil of Plato and teacher of Alexander the Great  سائینس کا بابا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستائیسوں انشا، شارق علی اونچائی سے جھرنے کا پانی جب کائی زدہ چٹانوں پر گرتا تو تیز ہوا کے ساتھ بوندوں کی پھوار دور تک جاتی. دادا جی کی کرسی اور گھانس پر بچھی ہماری پکنک دری بوندوں کی پھنچ سے ذرا دور تھی . پھر بھی گھانس اور ارد گرد کے درختوں میں نمی کا احساس تھا. یانی آپا تصویریں کھینچنے اور دوستوں کو انسٹاگرام کرنے میں مصروف تھیں. دادا جی کرسی پر نیم دراز اخبار سے منہ ڈھانپے شاید سو رہے تھے. بابل اور مجھ میں بحث جاری تھی . مینڈک تیز تیرتا ہے یا بطخ . بحث حد سے بڑھی تو دادا جی نے اخبار ایک طرف رکھا اور پاس آ کر بیٹھ گئے. کہنے لگے. افلاطون کا شاگرد اور سکندرکا استاد ارسطو تم دونوں کی طرح فطرت اور جنگلی حیات میں گہری دلچسپی رکھتا تھا. تو پھر ہو جاۓ ارسطو کی کہانی. میں اور بابل یک زبان بولے. دادا جی نے کہا. ارسطو ٣٨٤ ق م میں یونان میں پیدا ہوا اور باسٹھ سال کی عمر پائی . آج کا سائنسی طریقہ کار یعنی مشاہدہ اور اس پر منطقی دلائل سب سے پہلے اس نے اختیار کیا تھا. وہ بلا شبہ جدید سائنس کا بانی ہے. اس کا باپ شاہی طبیب تھا. بچپن میں شاہی دربار میں اس کی ملاقات سکندر سے ہوئی. سکندر نے بعد میں ارسطو سے فلسفے، ریاضی اور منطق کی تعلیم پائی اور دنیا کے ایک وسیع علاقے کو فتح کیا. ابتدائی تعلیم پانے کے بعد ارسطو سترہ سال کی عمر  میں ایتھنز جا کر افلاطون کی درسگاہ اکیڈ می میں اگلے بیس برس تک پہلے شاگرد اور پھر استاد رہا. اکیڈ می کا طریقہ تعلیم یہ تھا کے شاگرد اور استاد جمع  ہوتے اور آغاز کسی سوال سے ہوتا. کوئی جواب دیتا اور پھر سب خیال آرائی اور مکالمے کے ذریعے  علم حاصل کرتے. یانی آپا نے پہلے تو آئی فون سے ہم سب کی تصویر اتاری پھرگفتگو میں شریک ہو کر بولیں. اکیڈ می چھوڑنے کے بعد ارسطو نے یونان اور ترکی کی سیاحت اور شادی بھی کی. جانوروں کی حیات اور ان کی افزائش پر تفصیلی کتاب لکھی. انھیں مختلف خاندانوں اور قسموں میں تقسیم کیا. ان کے حصّہ جسم کی تفصیلی تصویریں بنائیں اور افعال کی وضاحت کی.پھر وہ دوبارہ ایتھنز آیا اور اپنے قائم کردہ اسکول لائسیم میں طبعیات، سیاست، منطق اور فلسفے کی تعلیم دینے لگا. اس کی سوچ اچھوتی اور طریقہ کار منفرد تھا، مشاہدات کی تفصیل کو من وعن  تحریر کرنا اور بات کی تہہ تک پھنچنے کے لئے تجربات مثلا جانوروں کی چیر پھاڑ بھی کرنا. جب کے روایتی یونانی فلسفی صرف سوچ و بچارہی پر انحصار کیا کرتے تھے. ارسطو کہتا ہے کہ کسی بھی واقعے کی وضاحت چار جوازوں کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے. مادی جواز، روایتی جواز، افادیتی جواز اور حتمی جواز. ڈھائی ہزار سال پہلے کے اس عقلمند انسان نے کچھ احمقانہ خیال بھی پیش کئیے . مثلا یہ کہ دنیا گول ہے مگر ساکت اور کائنات کا مرکز. یا ذہانت کا منبع دل ہے دماغ نہیں.....جاری ہے   www.valueversity.com2022-02-2804 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSTRANGER OF SAO PAULO, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST SERIAL, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 26Enjoy the discovery of Brazil with Pedro Alvares Cabral in this story. A country of Amazon river, rainforests and anaconda ساؤ پاؤلو میں اجنبی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چھبیسواں انشا، شارق علی انکل پٹیل کل رات ہی برازیل کے سفر سے لوٹے تھے. ناشتے کی میز پر دادا جی، یانی  آپا اور میں سفر کی روداد کے لئے ہمنہ تن گوش تھے. انکل نےکہا. دبئی سے فرینکفرٹ اور وہاں سے فورٹالیزا براستہ ساؤ پاؤلو . گھر سے چلے اٹھائیس گھنٹے ہو چکے تھے. کہر آلود صبح میں اونچی عمارتوں سے ٹکرا جانے کے خدشے کو شکست دیتا اور ائیرپورٹ کے گرد تین چکر لگانے کے بعد جب ہمارا جہاز کامیابی سے رن وے پر اترا تو مجھ سمیت سب مسافروں نے تالیاں بجا کر پائلٹ کو داد دی. ساؤ پاؤلو کے سادہ سے ائیرپورٹ پر سامان کے آخری لمحے تک انتظار اور مایوسی کے بعد ایئر لائن کے دفتر پھنچا تو فرینکفرٹ میں سامان پیچھے رہ جانے کی معزرت کے ساتھ ایک تھیلا اور ١٥٠ یو ایس ڈالر ہرجانہ وصول پایا. فورٹالیزا کی فلائٹ پانچ گھنٹے بعد تھی . انتظارگاہ کی بینچ پر بیٹھ کر تھیلا کھولا تو ایک ٹی شرٹ ، نیکر ، موزے کی جوڑی اور ٹوائیلیٹری بیگ میں موجود صابن، ٹوتھ پیسٹ، ریزر اور ٹوتھ برش سے ملاقات ہوئی. تھیلا سر کے نیچے رکھ کر نیم دراز ہونے ہی کو تھا  کے لمبا اورکوٹ اور سر پر جہازی ٹوپی پہنے ایک بوڑھا بینچ پر ساتھ آ بیٹھا اور بولا. تیرہ بحری جہازوں پر لادنے کے لئے مصالحہ جات  کا ذخیرہ فراہم کر سکیں گے آپ؟ میں بینچ پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا. نیند ہرن ہو چکی تھی. میرا جواب سنے بغیر ہی اجنبی بولا. میں پیڈرو ہوں، پیڈرو الواریس کبرال . ایک پرتگالی مہم جو. چھ  مہینے پہلے واسکو ڈی گاما تمھارے ملک ہندوستان سے ایک کامیاب مصالحہ جاتی مہم سے واپس پرتگال پہنچا ہے. اور اب مجھے تیرہ بحری جہازدے کر ایشیا اور افریقہ کے ساحلوں پر اس تجارت پر پرتگالی تسلط قائم کرنے کے لئے روانہ کیا گیا ہے .راستے میں یہاں جنوبی امریکا کی زرخیز زمین پر لنگر انداز ہونے کے بعد ہم نے پرتگالی پرچم لہرا دیا ہے . اجنبی کی باتوں میں اس قدر اعتماد تھا کے مجھے تردید کرنا مناسب نہ لگا . بلکہ میں نے اس سے سوال کیا . یہ نو دریافت ملک کیسا لگا آپ کو. اجنبی اطمینان سے بولا. مجھے یقین ہے کہ آج یعنی پندرھویں صدی میں دریافت ہونے والا یہ ملک مستقبل میں پرتگالی عظمت کی علامت بن کر ابھرے گا. ہم افریقی غلاموں کو یہاں بسا کر زرخیز زمین سے کپاس، تمباکو اور شکر حاصل کریں گے اور جہازوں میں بھر کر پرتگال لے جائیں  گے. پھر وہ رکا اور مجھ سے کہے لگا . اور تم یہاں کیسے؟ میں نے جواب دیا  جنوبی امریکا کے  سب سے بڑے ملک میں دنیا کے دوسرے بڑ ے دریا ایمازون کی ٤٠٠٠ میل لمبائی اور ١٥ میل چوڑائی اور اس کے دامن میں گھنے برساتی جنگل جو دنیا بھر کی آکسیجن کا بیس فیصد پیدا کرتے ہیں، ایک ایسی کشش ہے جو مجھے یہاں کھینچ لائی ہے.  اٹھارویں صدی میں دنیا بھر میں سونے کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی بہت سے مہم جوو ں کو یہاں لایا ہو گا  لیکن کون جانے ان میں سے کتنے  ٢٠ فٹ لمبے اژدہوں ایناکونڈا کا شکار بن گئے ہوں. آپ یہاں ہیں نانا جی. میں سارا ائیرپورٹ ڈھونڈھ چکی ہوں. دبلی پتلی پرتگالی نقوش والی لڑکی نے ہماری گفتگو میں شریک ہوتے ہوۓ کہا. پھر میری طرف مڑکر بولی . معاف  کیجئے گا جناب. میرے نانا کی یاد داشت درست تو ہے مگر گڈ مڈ .........جاری ہے   www.valueversity.com2022-02-2704 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYPAY FOR TAXI, RIDE IN SPACESHIP. GRANDPA & ME. URDU/HINDI POD CAST SERIAL. DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 25PAY FOR TAXI, RIDE IN SPACESHIP. GRANDPA & ME. URDU/HINDI POD CAST SERIAL. EPISODE 25 تانگے کا کرایہ،  دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، پچیسواں انشا، شارق علی دادا جی کے ہاتھ میں کتاب تھی اور میرے کنڈ ل. مسکرا کر بولے. صفحہ نہ پلٹا سکو تو کتاب پڑھنے میں کیا مزہ. یانی آپا گلدان میں پھول سجاتے ہوے بولیں. ممدو کے ہاتھ میں کتاب نہیں لائبریری ہے دادا جی . پھر پوچھا. کتنی کتابیں ہیں تمھارے کنڈل میں؟ میں نے کہا پندرہ سو اور ڈکشنری الگ. لفظ پر انگلی رکھیے اور تفصیل حاضر. دادا جی بولے. مان گئے بھئی . اب تو تحریر کے پنجرے میں بند خیال کی چڑیا تا نگے پر نہیں سپیس شپ میں سفر کرتی ہے. سنائیے نا تحریر کے ارتقا کی کہانی؟ میں اٹھلایا. کہنے لگے . بلا شبہ بول تحریر سے زیادہ قدیم ہیں. ممکن ہے پہلا انسان، ذہن میں آیا مربوط خیال اور بدن اور آواز کی ہم آہنگ با معنی بولی، ایک ساتھ دنیا میں آئے ہوں. تحریر بہت بعد میں ایجاد ہوئی. تیس ہزار سال پرانی اسپین اور فرانس کے غاروں میں بنی تصویریں ایک نوعیت کی پہلی تحریریں ہیں. قدیم انسانی گروہ بنے تو ملکیت ثابت کرنا ضروری ہو گیا تاکہ  اشیا کا تبادلہ ہو سکے. شکار، فصل، جانور، یا زمین کا ٹکڑا . تحریر اسی ضرورت کے تحت ایجاد ہوئی. ٤٠٠٠ ق م کے میسوپوٹیمیا میں ملکیتی تختیوں کے یقینی آثار ملتے ہیں. پھر ایسی تصویری زبان تحریر ہوئی جو اشیا کی سیدھی سادھی شکلیں تھی . پھر شکلوں کی ترتیب اور توڑ جوڑ سے مربوط مفہوم کا بیان ہوا. آخرکار حروف تہجی ایجاد ہوۓ جوصوتی اظہار سے جڑے ہوۓ تھے. میسوپوٹیمیا، ببیلونیا، دریائے نیل، سب تہذیبوں نے حروف تہجی اور زبان کے ارتقا میں حصّہ بٹا  یا ہے. یا نی آپا نے لان کے رخ والی کھڑکی کھولی تو تازہ ہوا کا جھونکا اندر آیا. دادا جی نے گہرا سانس لیا اور بولے. اولین تحریروں کی سب سے قدیم یادگار اول یا دویم فرعون کا نام نار.مر مٹی کی تختی پر ٣١٠٠ ق م میں لکھا گیا تھا. ٢٤٠٠ ق م میں پیپرس ایجاد ہو کر جب ٦٥٠ ق م میں یونان پھنچا تو باقاعدہ کتابیں لکھی جانے لگیں. ادھر چین میں ٤٠٠ قاف میم میں ریشم سے بنے پارچوں پر تحریریں لکھی گئیں. اسکندریہ کی لائبریری کا قیام جو ٢٩٥ ق م میں ہوا، نے تحریری علم محفوظ کرنے میں اہم پیش رفت کی. بندرگاہ پر لنگر انداز ہر ملک کے جہازوں پر لازم تھا کے لکھی ہوئی سب تحریریں لائبریری میں نقل کے لئے پیش کریں. یا نی آپا نے گرم چائے دادا جی کو تھماتے ہوۓ  کہا. ١٠٠ ص ع  میں چین میں سبزیوں سے بنی کاغذ کی ابتدائی صورت سامنے آئی. پانچ سو برس بعد یعنی ٦١٠ ص ع  میں کاغذ کی صنعت چین سے نکال کر جاپان اور پھر ٧٠٠ ص ع  میں ایشیا تک پوھنچی. گٹنبرگ نے ١٤٣٩ ص ع  میں پرنٹنگ پریس بنا کر چھپی ہوئی کتابوں کے ذریعے علم عام آدمی تک پھنچا کر انقلاب برپا کر دیا.اور پھرآج کی دنیا  توعلمی انقلاب کی ایک ولولہ انگیز دنیا ہے. کمپیوٹر، ڈیجیٹل کمیونیکشن اور ان سب کی بنیاد مائکروچپ کی مدد سے اب حروف، تصویر یا آواز کی صورت میں معلومات تک رسائی، اس کا برتنا، اسے محفوظ کرنا اور دوسروں تک پھنچانا جس قدر سستا اور آسان اب ہے پہلے کبھی نہ تھا. گویا سواری سپیس شپ پر اور کرایا تانگے سے بھی کم.......جاری ہے  www.valueversity.com2022-02-2604 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYAHMED SHAMIM, A JOURNEY OF LOVE. GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST SERIAL, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 24Ahmed Shamim (1927-1982) was a freedom fighter, a lover and an Urdu poet. This story is about his love and his well known poem “A moment of lost journey” (Rait Per Sufer Ka Lamha)   پر سفر، دادا اور دلدادہ ،انشے سیریل ، چوبیسواں انشا ،  شارق علی  آتشدان میں لگی آگ کی حدّت نے  کمرہ بہت آرام دہ بنا دیا تھا. دادا جی،  میں اور یانی آپا سمارٹ ٹی وی پرباری باری اپنی پسند کی ویڈیو دیکھتے اور تبصرے سے محظوظ ہوتے. یا نی آپا کی با ری پر نیرہ نور کی گا ئی ہوئی احمد شمیم کی نظم کا خوبصورت بول کبھی ہم خوبصورت تھے ختم ہوا تو میں نے کہا. اس نظم میں مجھے بچپن تو صاف دکھائی دیتا ہے لیکن ریت پر سفر کہیں بھی نہیں. پھر اس کا عنوان ریت پر سفر کا لمحہ کیوں ہے؟ دادا جی بولے . شاعر کی کہانی معلوم ہو تو نظم سمجھنا آسان ہو جاتا ہے. تو پھر سنا یے؟  دادا جی بولے. تقسیم ہوئی تو احمد شمیم  سری نگر کا ہونہار طالب علم اور کشمیر تحریک آزادی کا رکن تھا. انڈین سیکورٹی فورسز کے بار بار تشدد نے اسے اپنی ماں اور خاندان چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور کیا. پہلے آزاد کشمیر ریڈیو میں فری لانس صحافی اور پھر انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں سرکاری ملازمت کرتے کرتے ڈائریکٹر. اس کی نظمیں بچھڑی ہوئی ماں، کشمیری بچپن اور آزادی کا خواب کبھی نہ بھول سکیں. یانی آپا نے آتشدان ذرا دھیما کر دیا اور بولیں. ١٩٥٠ میں قرآن پڑھانے والی بزرگ خاتون جنھیں وہ ماں جی کہتا تھا، کے یہاں پینگ گیسٹ کے طور پر رہتے ہوے اس نے کم گو اور اکثر سوچ میں گم رہنے والی مونیرا کو دیکھا. بات کرنے کی جسارت بے گھر کر سکتی تھی . وہ خاموش رہا. مونیرا بچھڑ گئی. اور وہ ترقی پسند تحریک کا رکن بن کر حکومتی تشدد کا نشانہ بنا. ١٩٦١ میں اتیفاقاً مونیرا اسے دوبارہ ملی. محبّت نے بے سروسامانی اور اختلافات کے طوفان کو شکست دے دی. مونیرا ان دنوں کی یاد میں احمد شمیم کے خطوط پر مبنی کتاب” ہوا نامہ بر ہو” میں لکھتی ہے مال روڈ پر لوگوں کا ہجوم تھا. ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اپنی نی دنیا تخلیق کر رہے تھے. سا ری دنیا اور سا رے  دکھوں سے بے نیاز. یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم صدیوں سے ایک ساتھ چل رہے ہوں، ہم امر ہوں، ہر روپ میں ان مٹ. ہم ہی کائنات ہوں. وہ کہ رہے تھے تم میرا خواب ہو، ایک ایسی لڑکی جو دکھ اٹھانے کی بہت استعداد رکھتی ہے” تقسیم نے اسے ایک اور زخم دیا. ١٩٦٣ میں اس کی ماں رخصت ہوئیں تو وہ مٹی  دینے سری نگر نہ جا سکا. وہ سوچتا تھا مضبوط پاکستان کشمیر کی آزادی کی ضمانت ہو گا. ١٩٧١ نے یہ یقین بھی چکنا چور کر دیا. سقوط ڈھاکہ کی رات اسے دل کا پہلا دورہ پڑا. ساری قربانیاں رائیگاں دکھائی دیں. ١٩٨٢ میں وہ آخری ریڈیو انٹرویو میں کہتا ہے ریت پر سفر کرنے والے پیچھے آنیوالوں کے لئے کوئی ورثہ نہیں چھوڑتے. تیز ہوائیں قدموں کے نشان تک مٹا دیتی ہیں. بےسود سفر اور گم کردہ منزل. اس کی نظم ریت پر سفر کا لمحہ. کھوئے ہوے بچپن، بچھڑی ہوئی ماں، بکھرے خواب، درون ذات کی ویرانی اور  اس کے سفر کی رائیگانی  کا نوحہ ہے. ١٩٨٢ ہی میں دل کا دوسرا دورہ جان لیوا ثابت ہوا………..جاری ہے www.valueversity.com2022-02-2504 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYPRINCE OF THE FAIRY TALE, GRANDPA & ME. URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 23PRINCE OF THE FAIRY TALE, GRANDPA & ME. URDU/HINDI POD CAST. EPISODE 23 Once upon a time there lived in Denmark a great storyteller named Hans Christian Andersen. This is his fairy tale.   دکھ سکھ کہانی ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تیئیسواں انشا، شا رق علی لان میں خوبانی کے درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھے میں اور بابل کہانی کا انجام سوچ رہے تھے. بابل ہوائی گھوڑے دوڑانے اور میں جملے گھڑنے کا ماہر تھا. ساجھے کی یہ کہانیاں جب کڈز کلب کی ویب سائٹ پر شائع ہوتیں تو ہم پھولے نہ سماتے تھے. سوچ بچار جاری تھا کہ چنے ہوئے تازہ چنبیلی کے پھول طشتری میں لئے یا نی آپا جانے کب  ہمارے ساتھ آ بیٹھیں. نگاہ پڑھتے ہی بابل تو رفو چکر ہو گیا. انہوں نے کاغذ ہاتھ سے لیا تو میں بھی سرخ انار ہو گیا. پھر ان کے لبوں پر تمسخر نہیں تعریفی مسکراہٹ دیکھ کر ہمّت باندھی. بابل بھی دوبارہ ساتھ آ بیٹھا. تینوں نے مل کر کہانی مکمل کر لی تو یا نی آپا بولیں. چلو آج تم ایک کہانی کار کی کہانی سنو. ڈنمارک کے قصبے اوڈنسا  کے موچی اور دھوبن کے یہاں ١٨٠٥ میں پیدا ہونے والے لڑکے نے چودہ سال کی عمر تک پہنچتے مفلسی کے سب ذائقے چکھ لئے تو اس نے ماں سے درزی بننے کے بجے کوپنہیگن جا کر تھیٹر میں قسمت آزمائی کی اجازت لی. گلوکار، اداکار اور پھر رقاس بننے میں  سنگدل ناکامی کے بعد وہ مصنف بن کر تھیٹر سے جڑا رہا . لیکن اس کی تعلیم؟ بابل نے پوچھا. یا نی آپا بولیں. سترہ سال کی عمر میں ایک نیک شخص نے تعلیم دوبارہ شروع کرنے میں اس کی مدد کی. تعلیم تو مکمل ہوئی لیکن اس کی کہانیاں کہے گئے دلکش شاہکار ہیں، لکھے گئے علمی نوشتے نہیں. بار بار محبّت میں ناکام ہو کر وہ تمام عمر کنوارہ ہی رہا اور بیشتر زندگی امیر دوستوں کے گھر مہمان رہنے اور سفر میں گزاری. بہت سے دوست بناے . انگریز ناول نگار چارلس ڈکنز سے اس کی دوستی قابل ذکر ہے. زخم خوردگی، تنہائی اور اداسی کی بازگشت اس کی کہانیوں میں صاف سنائی دیتی ہے. مفلسی اور بورزوایت کی متضاد دنیاؤں سے آگاہی اس کے کرداروں میں جھلکتی ہے. کہانی کا مفہوم اور تاثر مختلف ذہنوں میں مختلف انداز سے ابھرتا ہے. گویا وہ کہانیاں نہ ہوں، نظمیں ہو. ہمارے انتظار حسین کی طرح اس نے بھی نانی اماں سے سنی کہانیوں کو اپنے رنگ میں دوبارہ کہا لیکن بیشتر کہانیاں اور کردار طبع زاد ہیں. دی اگلی  دُکلنگ اور دی لٹل مرمیڈ  اس کی عالمی شہرت یافتہ کہانیاں  اور کردار ہیں. فیری ٹیل  لکھ کر شرمندہ ہونے والا شاید یہ نہ جانتا تھا کہ پریوں کی کہانیاں آفاقی شاعری ہوتی ہیں. دنیا کی ہر ثقافت میں گھل مل جانے والی. یوں تو اس کی پہلی کتاب زیادہ کامیاب نہ ہو سکی تھی . وقت گزرا اوراس نے ایک ناول نگار، ڈرامہ نویس اور شاعرکی حیثیت سے لازوال شہرت پائی. عالمی ادب میں اینڈرسن کی حصّے داری بچوں کی کہانیاں ہیں. دنیا کی  تقریبا تمام زبانیں بدشکل بطخے  اورجل پری جیسے لازوال کرداروں سے آشنا ہیں. اینڈرسن ١٨٧٥ میں کوپنھیگن میں اس دنیا سے رخصت ہوا....جاری ہے  www.valueversity.com2022-02-2404 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYCHINESE WISDOM, GRANDPA & ME. URDU/HINDI POD CAST SERIAL. DADA AUR DILDADA URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 22CHINESE WISDOM, GRANDPA & ME. URDU/HINDI POD CAST SERIAL. EPISODE 22 This story is about Confucius, a Chinese teacher and philosopher who influenced China and to some extent the entire world from 200 BC till now.  دانش چین،  دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، شارق علی جنگل سے گزرتا ہوا نزدیک ترین راستہ خاصا تنگ تھا.ہمارے دونوں جانب درختوں کی ٹنڈ منڈ شاخیں تھیں اور پیروں تلے سوکھے زرد پتے. بابل راستے سے واقف تھا اور سب سے آگے. پھر فیروزی جوگر، نیلی جینس. میرون ٹاپ اور پونی ٹیل میں فیروزی میچنگ کلپ لگاے یا نی آپا. سب سے پیچھے میں. ہماری منزل جھیل کا وہ کنارہ تھا جہاں دادا جی اور انکل صبح ہی سے  فشنگ میں مصروف تھے. بابل تو آپ کو یاد ہی ہو گا. پھول بن میں میرا گہرا دوست جو کھیتوں میں اپنے باپ کی مدد کرتا ہے. پھول بن  پہنچنے پر یا نی آپا کی بابل سے فوری دوستی مجھے اچھی لگی تھی. پھر بھی جب وہ اسے مجھ سے تیز تیرنے یا درختوں پر تیزی سے چڑھ  جانے پر تعریفی نظروں سے دیکھتیں ہیں تو مجھے سینے پر بوجھ سا محسوس ہوتا ہے. جنگلی راستہ کشادہ ہوا تو ہم ساتھ ساتھ چلنے لگے. یا نی آپا نے بابل سے کہا. پڑھنے لکھنے کا شوق غربت کو ہرا  سکتا ہے. ٥٥١ ق م میں چین میں پیدا ہو کر تین سال کی عمر میں یتیم ہو جانے والے غریب کنفیوشس کی کہانی اس کی بہترین مثال ہے. ان دنوں باقاعدہ تعلیم صرف امیروں کو میسر تھی. اس غریب چرواہے نے تعلیم یافتہ امیروں کی ملازمت کر کے، ان کے ساتھ شہروں شہروں گھوم کر اور شاہی دربار تک رسائی میں شریک هو کر خود کو تعلیم سے آراستہ کیا تھا. وہ پہلے منشی بنا اور پھر ممتاز عالم . تیئس سال کی عمر میں اس نے استاد کی حیثیت سے تعلیم دینا شروع کی. پھر وہ شہر کا قاضی مقرر ہوا. جرائم کم ہوے تو اسے قدیم چین کے صوبے لو کا وزیرانصاف بنا دیا گیا  اور یوں پورے صوبے میں اخلاقی قدروں اور قانون کی بالادستی قائم ہوئی.چھپن سال کی عمر میں اپنے شاگردوں کے ساتھ وہ تعلیم دینے دور دراز علاقوں کے سفر پر روانہ ہوا. چین کی ثقافت پر اس کے اثرات ٢٠٠ ق م  سے لے کر ١٩١١ ص ع  تک بہت گہرے ہیں.  ہم جھیل کے کنارے پھنچے تو دادا جی بھی فشنگ راڈ زمین پر گاڑھ  کر ہمارے پاس گھاس پر آ بیٹھے اور بولے. کنفیوشس نے کوئی تحریر نہیں چھوڑی لیکن اس کے شاگردوں نے اس کی تعلیمات انالیکٹکس کی صورت میں چار سو قبل مسیح  ہی میں محفوظ کر لیں تھیں. اس نے کبھی مذہبی رہنما ہونے کا دعوه نہیں کیا. نہ ہی اس کی تعلیمات کوئی مذہب ہیں. وہ با عزت اور پر وقار انسانی رویئے کو با کردار معاشرے کی بنیاد قرار دیتا ہے. وہ کہتا ہے کہ حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ عوام کے لئے دیانتداری، قانون کی پابندی، امن پسندی اور دانشمندی کی مثال بن کر بہتر معاشرے کی تشکیل کریں. وہ نظم و ضبط اور اخلاقی اصولوں پر سختی سے کاربند ہونا ضروری سمجھتا ہے چاہے لوگ ہمیں احمق ہی کیوں نہ سمجھیں. موجودہ دنیا کی سیاست، نظام حکومت، مذہب اور ثقافت میں کنفیوشس کی تعلیمات کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھائی دیتا ہے. اس کا سنہری اصول یہ تھا کے وہی  حسن سلوک اختیار کرو جس کی تمہیں توقع ہے. وہ بہتر سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوا.........جاری ہے   www.valueversity.com2022-02-2304 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYATLANTIS, GRANDPA & ME. INSHAY SERIAL, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL. EPISODE 21ATLANTIS, GRANDPA & ME. INSHAY SERIAL, URDU/HINDI POD CAST EPISODE 21 Mystery is never ending. Enjoy the fascinating tale of Atlantis by Plato in this episode.  اٹلانٹس، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل، اکیسواں انشا، شارق علی ہم سب آتشدان  کے پاسس بیٹھے پھول بن کی سردی سے لطف اندوز ہو رہے تھے. سوکھے انجیر، پستوں سے بنی سفید ایرانی مٹھائی، یا نی آپا کے ہاتھ کا بنا تازہ اسپنج کیک اور گرم کافی. کمرہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد قہقہوں سے گونج اٹھتا. دیوار پر لگی آئل پینٹنگ دیکھ کر یا نی آپا نے کہا. دور دراز جزیرے کا حسین تاثر ہے اس تصویر میں. ممکن ہے اٹلانٹس ایسا ہی ہو.دادا جی بولے. پلاٹو کی کہانیاں انسانی صورت حال  کی نبض پر ہاتھ رکھنا نہ جانتیں تو شاید کب کی بھلا دی گئی ہوتیں. اٹلانٹس کی کہانی بھی ٢٣٠٠ سال سے زندہ ہے اور اس کی پر اسراریت ختم ہونے میں نہیں آتی. یہ قدیم فرضی شہر آج بھی ہم انسانوں کے تصور و خیال میں نت نے رنگوں سے سجا رہتا ہے. اس شہر کے بسنے والے آدھے دیوتا تھے اور آدھے انسان. وہ سمندر کے کنارے چھوٹے چھوٹے جزیروں پر بنے محلات میں رہتے تھے. ایک بڑی سی نہری گزرگاہ ان تمام جزیروں کے قلب سے ہو کر گزرتی اور مرکز میں موجود سب سے بڑے جزیرے سے جو دارلخلافہ تھا، ان سب جزیروں کو ملائے رکھتی. ان سر سبز و شاداب جزیروں پر سونے، چاندی اور دیگر بیش قیمت دھات کی عمارتیں بنی ہوئیں تھیں. راستوں کے کنارے خوبصورت اور نایاب درخت لگے ہوے تھے اور جنگلوں میں آزادانہ گھومتے قسم قسم کے دلکش جنگلی جانور. مرکزی جزیرے کی پر شکوہ عمارتوں سے حکمرانوں کی خوش ذوقی اور طاقت کا اظہار ہوتا تھا. پھر یہ تہذیب جو عالی ظرف تھی  آہستہ آہستہ لالچ اور آسائش میں گرفتار ہو گئی. اعلی اخلاقی قدریں اور اخلاقی اصول پامال ہونے لگے. اس بات نے دیوتاؤں کو غضبناک کر دیا. کہانی کا آخری سین آتش فشانی کی ہولناک رات ہے اور زلزلے سے اٹھنے والی سمندر کی بے رحم لہروں میں اٹلانٹس کا ہمیشہ کے لئے سمندر میں ڈوب جانا. کہانی کا وا قعاتی تسلسل حیران کن حد تک حقیقی ہے. مہم جو صدیوں سے اور آج بھی اس گم شدہ شہر کی تلاش کر رہے ہیں. میڈی ٹیرانیان ، اسپین، انٹاکرکٹکا،غرض یہ کے دنیا کے نقشے میں موجود کون سی ایسی جگہ ہے جہاں اٹلانٹس کی موجودگی کا قیاس نہ کیا گیا ہو. اس کا امکان بہت کم ہے کے پلاٹو کی یہ کہانی سچ ہو. غالب امکان یہ ہے کے اس نے فلسفیانہ مباحث کے لئے یہ پہلو دار کہانی گڑھی ہو. انسان فطرت ، حقیقت کل کی تلاش، مثالی معاشرے جیسے موضوعات اسے بہت محبوب تھے. اٹلانٹس کی کہانی میں یہ سب کچھ موجود ہے. یونان کے جزیرے سنتورینی کی تین ہزار چھ سو سال پہلے آتش فشانی سے مکمل تباہی کے نتیجے میں عظیم www.valueversity.com2022-02-2204 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYCOURAGE TO REFUSE, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH SHORT STORY SERISL, EPISODE 20COURAGE TO REFUSE, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 20  جرات انکار، دادا اوردلدادہ، انشے سیریل  بیسواں انشا، شارق علی پہلی دسمبر انیس سو  پچپن کی ایک سرد شام، امریکی ریاست الباما کا شہر مونٹگومری. وہ دن بھر کام سے واپسی پر تھکی ہاری  بس کی سیٹ پر بیٹھی ہی تھی کہ ایک سفید فام شخص بس میں داخل  ہوا. ڈرائیور نے اسے سیٹ چھوڑ دینے کو کہا. یوں تو وہ کا لے گوروں کے الگ الگ اسکول، چرچ، دکانوں، اور جگہ جگہ بورڈ پرلکھی تحریروں  صرف گوروں کے لئے، صرف کالوں کے لئے دیکھنے کی عادی تھی اور اس نے سفید فام کے کے کے پارٹی کا تشدد اور سیاہ فام لوگوں کے جلاتے ہوے گھر بھی دیکھ رکھے تھے. لیکن اس لمحے اس نے اپنے دل میں بسنے والے اس یقین کا ساتھ دیا کہ سب انسان برابر ہیں. سیٹ چھوڑنے سے انکار پر بس ڈرائیور نے پولیس طلب کر لی اور رؤسا پارکس کوقانون تفریق کی خلاف ورزی پر پہلے گرفتار اور پھر جرمانے کی سزا ہوئی. جرمانہ ادا کرنے کے بجاے  اس نے اس غیر انسانی قانون کو منسوخ کرنے کے لئے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی.اور یوں امریکی تاریخ کے مونٹگومری بس بائی کاٹ کا آغاز ہو گیا. دادا جی کی کہانی نے ہمیں نیرنگ آباد سے پھول بن جانے والے راستے کے خوبصورت منظر سے بے نیاز کر رکھا تھا. انکل منی بس کی ڈرائیونگ سیٹ پر، میں اور یا نی آپا پچھلی اور دادا جی اگلی سیٹ پر بیٹھے اس کہانی میں گم تھے . میں دل ہی دل میں بہت خوش تھا. اگلے دو ہفتوں کی چھٹیوں میں یا نی آپا کو پھول بن میں اپنے پسندیدہ مقامات پر لے جانے کا یہ سنہری موقع تھا. دادا جی نے بات جاری رکھی. رؤسا پارکس کی جرات انکار نے پورے امریکا کے سیاہ فام قائدین کو حوصلہ بخشا. اور وہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی قیادت میں بسوں پر سواری کے بائی کاٹ پر متحد ہو گئے. یہ کوئی آسان بات نہ تھی. بیشترامریکی سیاہ فام کاروں سے محروم تھے. اس ہڑتال کا مطلب تھا میلوں پیدل چل کر کام پر جانا. لیکن وہ سب پر عزم تھے اورمتحد.یہ احتجاج تین سو اکسٹھ دن تک جاری رہا. بل آخر سپریم کورٹ نے الباما کا قانون تفریق منسوخ کر دیا. اس فیصلے سے مشکلات اور بڑھ گئیں. رؤسا اور دیگر قائدین کو دھمکایا گیا، بہت سوں کے گھر بم کے دھماکوں سے اڑا دیئے گئے. ان میں مارٹن لوتھر کنگ کا گھر بھی شامل تھا. انکل نے منی بس کو مہارت سے موڑا اور بولے. انسانی حقوق کا علم بردار مارٹن لوتھر کنگ جونیئر موجودہ دور کا بہترین مقرر شمار ہوتا ہے. انیس سو تریسٹھ میں واشنگٹن مارچ میں شریک ڈھائی لاکھ  لوگوں کے سامنے کی گئی اس کی تقریر" میرا بھی ہے اک خواب" آج بھی دلوں کو گرما دیتی ہے. میری رائے میں وہ موجودہ تاریخ کی سب سے پر جوش سوچ، سب سے طاقتور آواز ہے. اٹلانٹا جارجیا کا یہ قائد اور  سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ اور عدم تشدد کے راستے مساوی حقوق کی جد و جہد کرنے والا عظیم ہیرو انیس سو اڑسٹھ میں میمفس کے مقام پر قتل کر دیا گیا.....جاری ہے www.valueversity.com2022-02-2104 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYRIVER OF MELODY, GRANDPA & ME, URDU HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 19Tansen Urdu/Hindi pod cast This story commemorates Mian Tansen, the Indian classical music composer, musician and vocalist who is known for a large number of compositions.  سر دریا ، دادا اور دلدادہ ،ا نشے سیریل ، انیسوان انشا ، شا ر ق علی  رات گنے شآم موسیقی سے گھر واپسی پر یا نی آ پا کا ا صرار ھمیں دریا کنارے ان کے محبوب ریستوران میں لے آ یا تھا. ہم بالکونی میں بیٹھے پھیلی ہوئی چاندنی میں دریا کی دھیمے سروں میں بہتی لہروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے. میری فرمائیش پر یا نی آ پا نے نیرہ نور کا نغمہ برکھا  برسے چھت پر . میں تیرے سپنے دیکھوں ، سنایا  تو مجھ سمیت دادا جی اور انکل بھی مبہوت ہو کر رھ گئے . آ سمان پر بادل کا ٹکڑا دیکھ کر میں نے یا نی آپا کو چھیڑا . وہ دیکھیے میگھ ملہار کی بعد بَارش کے آثار. سب ھنس دیے . دادا جی بولے. میگھ ملہارسے بارش اور دیپک راگ سے آ گ یا  اکبر کے دربار کی شمعوں کا خود بخود جل اٹھنا تان سین سے جڑی کہانیاں ہیں.وہ  بلاشبہ شمالی ہںدوستان کی کلاسیکی موسیقی کا بانی ہے. گوالیار میں شاید ١٥٠٦ میں پیدا ہوا  اور ١٥٨٩ میں وفات پائی. یا نی آ پا چائے کا کپ تھامے بولیں. وو پہلے میوہ کے  راما  چندرا کا درباری تھا. پھر بطور تحفہ اکبر کے  دربار تک پہنچا. اکبر کی بیٹی مہرالنسا کی محبت میں گرفتار ہوا تو حضرت غوث کی ہاتھوں پہلے مسلمان، پھر اکبر کا داماد اور نورتن بن کر میاں تان سین کہلایا. وہ اپنے استاد شری ہریداس کا ہونہار طالب علم تھا . انکل نمکین بسکٹ اٹھائے ہوئے بولے . اس کے ایجاد کردہ راگوں میں بہیرویں ، درباری،  ملہار ، سارنگ اور راجیسوری قابل ذکر ہیں . وہ بنیادی طور پر ایک صوفی گائک تھا. کہتے ہیں اس کی موت دیپک راگ سے لگی آگ کے بے قابو ہوجانے سے ہوئی تھی. اس کا مزار گوالیار میں حضرت غوث کے  سرہانے ہے. پاس ہی املی کا ایک درخت ہے . اتنا ہی پرانا جتنا کہ مزار . آ ج بھی لوگ اس کے پتے چباتے ہیں کہ سریلے ہوسکیں. دادا جی بولے. روایت ہے کے اکبر بادشاہ نے  تان سین سے  ایک دفعہ  کہا . بلا شبہ تم دنیا کے بہترین گا ئک ہو.  اس نے  دست بستہ عرض  کی . سرکار صرف ایک شخص مجھ سے بھتر گاتا ہے . اکبر نے اس شخص کی دربار میں حا ضری کا حکم دیا. تان سین بولا عالی جاہ گانا سننے ہمیں خود ہی جانا ہوگا. اکبر مان گیا طو یل سفر کے بعد منزل آئی تو رات ہوچکی تھی. تان سین نے کہا . بہت رات ہوچکی . اب تو وہ سو چکے ہوں گے . اگلی صبح شاہی پڑاؤ میں اکبر ابھی بستر ہی میں تھا کہ اس کی آنکھ ایک انتہائی دلکش نغمے سے کھلی. وہ مسحور ہو کر رہ گیا. بلاشبہ  یہ گائک تان سین سے بھی زیادہ سریلا تھا. تان سین نے  بتایا، یہ میرے استاد شری ھریداس ہیں. انکے تمام سر ، انکا تمام علم و ہنر میں سیکھ چکا ھوں .لیکن صرف ایک بات کا فرق ہے . اکبر نے پوچھا وہ کیا؟ تان سین بولا. میں ہندوستان کے بادشاہ کی خو شنودی کیلنے گاتا ہوں اور یہ کائنات کے رب کی خو شنودی کیلنے............جاری ہے www.valueversity.com2022-02-2004 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYPHOOL WALON KI SAIR, GRANDPA & ME, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 18PHOOL WALON KI SAIR, GRANDPA & ME, INSHAY SERIAL, EPISODE 18 This story is about a week long festival in Mehrauli, Delhi, that brings Hindus and Muslims together to offer floral chaadar and pankha to Sufi saints and Yogmaya Mandir. Can it become a symbol of communal harmony?  پھول والوں کی سیر، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل، اٹھا رواں انشا، شارق علی فلم کا آخری شو دیکھ کر نکلے تو دل بہت بوجھل تھا.وہ سین بار بار آنکھوں کے سامنے آتا جب سرحد کے اس طرف مولوی اغوا شدہ کم عمرہندو لڑکی کو زبردستی مسلمان کر کے نکاح کر لیتا ہے.یا جب سرحد کے دوسری طرف  کچھ بلوائی گوشت کھا لینے کے شبے میں ایک مسلمان کو چھریوں کے پے در پے وار سے چھلنی کر دیتے ہیں. پوری رات کروٹیں بدلتے گزری. صبح ناشتے کی میز پر پہنچا تو سب پہلے ہی سے موجود تھے. رات کی فلم اور ہندو مسلم تناؤ کا ذکر چل نکلاتو دادا جی بولے. نفرت کی خاردار باڑھ حکمرانوں کے مفادات کی حفاظت کرتی ہے اور عوام کو لہو لہان. مذہبی منافرت سے پہلے معیشت اور پھر ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں، باہمی رواداری کی ایک مثال دہلی کے محلے مہرولی میں ہندو مسلم اشتراک سے سجنے والا میلہ ہے،پھول والوں کی سیر. کچھ بتائے اس میلے کے بارے میں، میں نے کہا. دادا جی بولے. ہر مون سون میں ہندو مسلم پھول فروش ہم آہنگی کی علامت کے طور پر یہ تاریخی میلا مناتے ہیں. کہتے ہیں جب برطانوی راج نے بہادرشاہ ظفر کو تاجدار مقرر کر دیا تو ان کے سوتیلے بھائی  مرزا جہانگیر نے طیش میں آ کر ریذیڈنٹ بہادر پر گولی چلا دی. گولی تو بے اثر رہی لیکن مرزا جہانگیر کو الہ باد جیل میں قید کر دیا گیا. مرزا کی والدہ نے مانت مانی کے مرزا کی رہائی پر وہ نظام الد ین اولیا کے مزار سے بختیار کاکی کی درگاہ تک پیدل جائیں گی. منت قبول ہوئی تو انہوں نے ایسا ہی کیا. یہ میلہ اسی منّت کی یادگار ہے. پھر یہ دھیرے دھیرے ہندو مسلم ہم آہنگی کی علامت بن گیا. اس میلے کو دوبارہ زندہ کرنے کا سہرا جواہر لال نہرو کے سر ہے جنہوں نے ١٩٦٢ میں اسے نئی زندگی دی. نظام الدین اولیا سے جلوس نکلتا ہے تو شنہائی کی دلفریب دھنیں بجانے والے اور رقص کرتے لوگ اس کی قیادت کرتے ہیں اور ہندو مسلم برابر سے شریک ہوتے ہیں. پھر جلوس درگا جاگ مایا کے مندر پہنچ کر پھولوں کے پنکھوں اور چادروں سے مندر کو سجاتا ہے. وہاں سے نکل کر مزید آگے بڑھتے ہوے یہ جلوس تیرھویں صدی کے صوفی بختیار کاکی کی درگاہ پر اختتام پذیر ہو جاتا ہے.اس درگاہ کوبھی پھولوں کی چادروں اور پنکھوں سے سجایا جاتا ہے. ہفتہ بھر جاری رہنے والے اس میلے میں مہرولی کے جہاز محل اور حوض شمسی میں موسیقی، کتھک ناچ، مشاعرے، قوالی اور نوٹنکی کا سماں بھی بندھتا ہے. پتنگ بازی کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں، کبڈی یا دنگل  کا  میدان جمتا ہے. آج کل دہلی کے راج بہادر کو بھی پھولوں کے پنکھے اور چادر پیش کی جانے لگی ہے تا کہ میلے کی سرپرستی برقرار رہے. میں جوان تھا تو یہ میلا دہلی کی ثقافتی رنگا رنگی اور ہم آہنگی کی علامت ہوا کرتا تھا. جانے اب محبّت کا یہ سما باقی ہے یا نہیں ……جاری ہے www.valueversity.com2022-02-1903 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYCHINESE DRAGON, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 17CHINESE DRAGON, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 17 This story is about the most amazing piece of architecture and the most ambitious building project ever attempted in human history پتھریلا سانپ ، دادا اور دلدادہ ، انشے  سیریل ، سترہواں انشا ، شارق علی بارش تھمی اور اچانک دھوپ نکل آئ . تراشیدہ پتھروں کی اینٹوں سے بنی دیوار سے ٹیک لگاتے میں اور یا نی آپا جلدی جلدی آئس کریم ختم کر رہے تھے کیونکے اندر کھانا پینا منع تھا . کشادہ لان کی بھیگی ہوئی سبز گھاس کے پس منظر میں پیلے پتھروں سے بنی نیرنگ آباد میوزیم کی شان دارعمارت کسی اینیمٹڈ فلم کا جادوئی محل لگ رہی تھی. مرکزی گنبد ، دونوں طرف محرابی سلسلے، نوکیلی فصیلیں ، رنگین شیشوں سے سجی کھڑکیاں ، فولادی دروازے تک جاتی با وقارسیڑھیاں . میں نے ٹیک لگانے لگاے  دیوار پر ہلکا سا مکا مارا اور کہا . دیوار چین بھی ایسی ہی مضبوط ہے کیا ؟ یانی آپا نے کہا . قدیم عمارتیں دستکاروں کی محنت اور مہارت کی پائندگی ہوتی ہیں . چین کی شمالی سرحدوں کی حفاظت کے لئے دیوار بنانے کا حکم قن شی ہوانگ نامی بادشاہ نے غالباً دو سو اکیس ق م میں دیا تھا . دیوار کی تعمیر منگ بادشاہوں کے دور حکومت یعنی تیرہ  سو اڑسٹھ ص ع  سے سولہ سو چوالیس ص ع تک جاری رہی اور یہی وہ دیوار ہے جو اب تک سلامت ہے . کہا جاتا ہے کے اس کی تعمیر میں دس لاکھ لوگ مارے گئے جن میں سے بیشتر اسی کے نیچے دفن ہیں . پہلے مٹی اور پتھر اور بعد میں اینٹوں سے بنی یہ محض دیوار نہیں بلکے سات ہزار چوکیوں ، اوپر ایک چوڑی سڑک ، رہائشی اور دھویں سے پیغام رسانی کے لئے بنائی گئی عمارتوں کا طویل سلسلہ ہے جس کی چوڑائی بیشتر مقامات پر پندرہ فٹ اور اونچائی تینتیس فٹ ہے . اس کے قریب بہت سی فوجی بستیاں بسائی گئیں تا کہ حملے کی صورت میں فوری دفاع کو ممکن بنایا جا سکے . اس کی لمبائی کتنی ہے یانی آپا ؟ میں نے پوچھا . بولیں . یہ پانچ ہزار پانچ سو میل لمبی پتھریلے سانپ جیسی دیوار انسانی ہاتھوں سے بنائی جانے والی سب سے طویل عمارت ہے . دنیا کے سات عجوبوں میں شامل اور خلا سے نظر آنیوالی واحد انسانی ہاتھوں سے تعمیر شدہ عمارت .  میں نے کہا . دادا جی نے بتایا تھا کے ہاتھ گاڑی سب سے پہلے چین میں ایجاد اور استعمال ہوئی . شاید ہاتھ گاڑی نہ ہوتی تو اس دیوار کی تعمیر ممکن ہی نہ ہوتی . بالکل ٹھیک . یانی آپا نے کہا . کیا ہی اچھا ہو ، میں نے آسمان کی سمت دیکھتے ہوے سنجیدہ لہجے میں کہا ، اگر اڑنے والے جوتے جلد ایجاد ہو جایں اور میں اور آپ دیوار چین کے ساتھ ساتھ اڑتے ہوے گھنے جنگلوں ، میدانوں ، صحراؤں ، دریاؤں اور شہروں سے ہو کر گذرتے ہوے دیوار کے اس بلند ترین مقام تک پوھنچ جایں  جو سمندر سے پانچ ہزار فٹ بلند ہے . یانی آپا کچھ نہ بولیں . بس مجھے دیکھ کر مسکرائیں اور ہم دونوں میوزیم کے دروازے کی جانب چل دیے ----- جاری ہے This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.  Listen, read, reflect and enjoy! www.valueversity.com2022-02-1804 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYBY THE RIVER, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, EPISODE 16BY THE RIVER, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 16 All early civilizations started by the rivers. Why? Lets enjoy the glimpse of 5000 years old Indus civilisation in this story  Listen, read, reflect and enjoy! دریا کنارے، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، سولھواں انشا، شارق علی دریا کے بہتے پانی میں اٹھتی گرتی لہریں پہلے سنہری، پھر نارنجی اور اب سرخی مائل رنگوں کی پوشاک پہنے والز میں مصروف تھیں۔ چپو چلنے سے کشتی نے رخ بدلا تو سامنے بیٹھی یانی آپا کے چہرے کی ہنسی، کشادہ ماتھا اور کھلے ہوئے سیاہ بال رنگوں کے اسی رقص کی زد میں آگئے۔ دادا جی اور انکل بیچ کے تختوں پر بیٹھے ڈوبتے سورج کا منظر دیکھ رہے تھے۔اور میں اڑتے بالوں میں بدلتے رنگوں کو والہانہ رقص۔ چپو چلاتے ملاح حسب ضرورت کبھی ایک طرف ہوتے کبھی دوسری طرف۔ آج شام دریا کی سیر یانی آپا کی تجویز تھی،۔سورج ڈوب گیااور شفق رنگ آسمان سیاہی مائل ہونے لگا تو ہم سب کشتی سے اتر کر دریا کنارے ایک ریستوراں میں جا بیٹھے۔داداجی بولے۔انسانی تہذیب دریا کے کنارے شروع ہوئی۔لیکن کیوں؟میں نے پوچھا۔بولے۔قدیم لوگ شکار پر زندہ تھے یا پھل دار درختوں پر۔دریا کے کنارے دونوں دستیاب تھے۔فصل اگانا سیکھا تو زرخیز مٹی بھی یہیں تھی۔تقریبا ایک ساتھ یعنی تین ہزار تین سوق م سے دو ہزار ق م  کے درمیان دنیا میں چار مختلف دریائوں کی وادیوں میں انسانی تہذیب نے آنکھ کھولی۔دجلہ و فرات کے کنارے میسوپوٹامیا، نیل کے کنارے مصری تہذیب، دریائے سندھ کے کنارے انڈیس ویلی اور ییلو ریور کے کنارے قدیم چینی تہذیب۔تہذیب کسے کہتے ہیں دادا جی؟بولے. تہذیب لوگوں کی مہارت سے وجود میں آتی ہے۔شہر کی فصیلیں، اینٹیں، مٹی کے برتن دھات کے اوزار، موسیقی کے آلات، کھلونے، لکھنے پڑھنے اور تجارت کی غرض سے دور کی بستیوں تک سفر، تہذیب یافتہ ہونے کی نشانیاں ہیں۔انکل نے کہا ۔ان سب تہذیبوں میں سے پانچ ہزار سال پرانی انڈس ویلی سب سے زیادہ وسیع تھی۔موجودہ پاکستان سے زیادہ بڑے علاقے میں چودہ سو چھوٹی بڑی بستیوں کے آثار ملتے ہیں۔کچھ کی آبادی اسی ہزار تک تھی۔یہ پہلی منظم بستیاں تھین جن میں رہائشی اور کاروباری علاقے الگ تھے۔ ۔کچھ کے خیال میں دس لاکھ دوسروں کے مطابق پچاس لاکھ لوگ انڈس ویلی میں آباد تھے۔موہن جوداڑو اور ہڑپا اسی تہذیب کے دو عظیم شہر ہیں جن میں پینے کے پانی، آب پاشی اور نکاسی کے باقاعدہ انتظامات موجود تھے۔یانی آپا بھی شریک ہوکر بولیں۔ان کے طبقاتی نظام میں امیر لوگ باغات، موسیقی، مذہبی رسومات، مختلف کھیلوں اور تفریحات میں مشغول رہتے تھے اور عام لوگ کھیتی باڑی میں یا پھر وہ محض  غلام تھے۔خیال رہے موہن جوداڑو وغیرہ ہمارے دیے ہوئے نام ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ ان شہروں کو کیا کہتے تھے۔یہیں پہلے پہل دنداں سازی اور بتوں کو استعمال کرنے کے آثار بھی ملتے ہیں۔ لوتھل کی بندرگاہ انسانی ہاتھوں سے بنی پہلی بندرگاہ تھی، جسے مال و اسباب کی آمد و رفت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔۔۔۔۔جاری ہے۔ www.valueversity.com2022-02-1704 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYUNENDING LOVE BY TAGORE, URDU HINDI POD CAST, NA TAMAM MOHABBAT, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, EPISODE 15“I seem to have loved you in numberless forms, numberless times…”  Rabindranath Tagore 1861 – 1941  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life.  Listen, read, reflect and enjoy! نا تمام محبت، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل پندرہواں انشا ،شارق علی رات کے کھانے کے بعد ایکس بوکس کھیلنے کی تجویز لیے میں یانی آپا کو ڈھونڈتا ہوا لان میں پہنچا تو وہ رات کی رانی کے پاس، پام کے پتوں سے چھن  کر آنے والی چاندنی میں،  بید کی آرام کرسی پر نیم دراز، ہاتھ میں کتاب لیے، جانے کس سوچ میں گم تھیں، اس سے پہلے کہ میں ان کا پسندیدہ شعر یاد کیے دور ہی سے لوٹ آتا۔ ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس پلٹ آئے۔ ۔وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو۔ وہ گویا خواب سے بیدار ہوتے اور کتاب بند کرتے ہوئے بولیں۔آئو ممدو. میں ٹیگور کی نظم نا تمام  محبت کے سحر میں گرفتار تھی۔ مجھے بھی سنائیے یہ نظم- میں ساتھ کی کرسی پر بیٹھے ہوئے بولا۔ بنگالی سے انگریزی اور پھر اردو۔چلو نظم کی ابتداتو سن ہی لو۔ سحرزدہ دل-- تم سے ملا ہے--گیتوں کے لیے ہار--زندگی در زندگی-- ہر پل، ہربار-- نا تمام  محبت-- ان گنت بار. ٹیگور وہی نا جسے نوبل پرائز ملا تھا؟ میں نے پوچھا۔ کہنے لگیں، ہاں وہی۔ اٹھارہ سو اکسٹھ میں کلکتہ میں پیدا ہونے والے کی پہلی کتاب سترہ سال کی عمر میں چھپی تھی ۔پھر اس نے اٹھارہ سو اٹھتر سے اٹھارہ سو اسی تک انگلستان میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اٹھارہ سو نوے میں ہندوستان آیا تو باپ کی زمینوں پر غریب کسانوں کے دکھ دیکھے ۔پھر ساری عمر ان دکھوں کو کم کرنے، کسانوں کو اور عام لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے وقف کردی۔ انیس سو ایک میں اس نے شانتی نکیتن کی بنیاد رکھی جو رفتہ...2022-02-1604 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSLAVE TRADE, GULAAM TIJAARAT, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, CHODWA QIST, EPISODE 14Trafficking of Africans by the major European countries for about 350 years is a crime against humanity. This story is about greed and cruelty, but also about the will to survive and to be free. غلام تجارت، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چودھویں قسط، شارق علی انکل کی ملازمہ نصیبن کا باپ قرض کے بدلے بوڑھے زمیندار سے اس کی شادی  پر راضی ہوا تو یانی آپا کا غصہ قابل دید تھا۔ اس شام ہمت کر کے میں نے کہا۔ شادی تو سب کی ہونی ہی ہوتی ہے، نصیبن کی شادی میں کیا حرج ہے؟ کہنے لگیں یہ شادی نہیں غلام تجارت ہے ممدو۔ کوئی با ضمیر ایسا ظلم برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے گفتگو کو طول دیا۔ غلام تجارت کیا ہوتی ہے یانی آپا؟ کہنے لگیں۔ یوں تو یہ ظلم آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے، لیکن منظم طور پر سیاہ فام افریقی غلاموں کو امریکہ لے جاکر فروخت کرنا پندرھویں صدی میں پرتگالیوں اور کچھ ہسپانویوں نے شروع کیا تھا۔ برطانوی تاجر سولہویں صدی میں اس مذموم تجارت میں شامل ہوئے اور پھر اسے عروج  پر پہنچا کر سب سے زیادہ منافع کمایا۔ اٹھارہویں صدی تک ساٹھ لاکھ افریقی امریکہ میں بیچے گئے اور تقریبا تیس لاکھ نے راستے میں دم توڑ دیا۔ کم از کم ہر تیسرے غلام کی تجارت کے  ذمہ دار برطانوی تاجرتھے۔ وہ برطانیہ سے اسلحہ اور برانڈ ی  جہازوں پر لادتے اور افریقی ملکوں جیسے انگولا اور کونگو وغیرہ میں مقامی حکمرانوں اور تاجروں کو بیچ کر ان کے سیاسی مخالفین، قیدی اور بعض اوقات گائوں اور دیہاتوں سے سیاہ فام معصوموں کو قید کر کے غلام بنا لیتے۔ پھر انہیں سینکڑوں میل پیدل چلا کر بندرگاہوں کی ان جیلوں تک لاتے جنہیں وہ فیکٹریاں کہتے تھے۔ پھر ان بے گناہ لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح  چار مربع فٹ کے پنجروں میں جانوروں سے بھی بد تر حالت میں امریکہ لے جایا جاتا۔ سات ہفتوں کے اس سفر میں تقریبا پندرہ فی صد غلام بھوک یا بیماری یا فرار ہونے کی کوشش میں دم توڑ دیتے۔ امریکہ میں وہ ان غلاموں کو شراب اور شکر کے عوض فروخت کرتے اور یہ مال برطانیہ لا کر خوب دولت کماتے۔ یہ سچ ہے کہ اس ظالمانہ کاروبار نے برطانوی معیشت کو مضبوط کیا تھا۔ ادھر امریکہ میں ان غلاموں کے ستھ ظالمانہ سلوک کیا جاتا۔ فیصل کاٹنے کے موسم میں اڑتالیس گھنٹے مسلسل کام کی مشقت لی جاتی۔ بالآخر کچھ مفرور اور باغی غلاموں نے انگلستان میں افریقہ کے بیٹے نامی تنظیم بنائی اور اس ظلم کے خلاف خطوط لکھنے کی مہم چلا کر انسانی ضمیر کو جھنجھوڑا۔ غلام تجارت کے خلاف پہلے مظاہرے کی قیادت ٹیکی نے کی تھی جو خود ایک غلام رہ چکا تھا۔عوامی رائے ہموار ہونا شروع ہوئی تو سترہ سو ستاسی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ پھر برطانوی تاریخ کے سب سے بڑے عوامی مظاہروں نے برطانوی پارلیمنٹ کو غلام تجارت پر پابندی لگانے پر مجبور کردیا۔ پھر امریکہ میں بھی اس کاروبار پر پابندی لگی اور یوں ساڑھے چار سو سال تک جاری رہنے والایہ گھناونا کاروبار ختم  ہوا۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔  www.valueversity.com2022-02-1503 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYWISDOM OF DIOGENES, DIOU JANS KI BAATEIN, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, TAIRWA INSHA, EPISODE 131In order to live a rich life possess less said the Diogenes of Sinope. This is the story of his encounter with Alexander the Great.   دیوجانس کی باتیں، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تیرھواں انشا، شارق علی نیرنگ آباد لائبریری کے ہال کی بتیاں مدھم کردی گئیں۔ دادا جی، میں اور یانی آپا بینچوں کی تیسری قطار میں بیٹھے تھے۔سر آغا، جو فلسفے کے استاد ہیں، اپنا لیکچر شروع کرتے ہوئے بولے۔آج ہم ترکی کے شہرسائی نوپ میں چارر سو چار ق م میں پیدا ہونے اور تین سو تیئس ق م  میں رخصت ہونے والے یونانی فلسفی دیوجانس کلبی کے انسانی خوشی کے تصور پر بات کریں گے۔ایک بیرل میں رہنے والے دیوجانس کا کل اثاثہ ایک لبادہ، ایک تھیلا اور ایک پیالہ تھا۔ ایک دن اس نے ایک لڑکے کو اوک سے پانی پیتے دیکھا تو اپنا پیالہ بھی پھینک دیا۔ اس کے خیال میں پر مسرت اور دولتمند وہ ہے جو کم از کم پر مطمئین ہو۔ افلاطون اسے پاگل سقراط کہتا تھا اور ایتھنز کے عام لوگ، کہ جن میں وہ ہر دلعزیز تھا، اسے کلبی یا سنکی کہتے تھے۔ ایک بار شریر لڑکوں نے جب اس کا بیرل توڑ دیا تو ایتھنز کے باسیوں نے ایک اور بیرل کا انتظام کر دیاتھا. ۔شان و شوکت اور دولت کی نمائش سے نفرت کرنے والے دیوجانس نے ایک دفعہ عالیشان قالینوں اور مخملیں گائو تکیوں سے سجی محفل میں میزبان کے منہ پر تھوک دیا۔اور پھر یہ کہتے ہوئے معافی مانگ لی تھی کہ وہاں اسے سب سے کمتر اس کا چہرہ ہی نظر آیا کہ جس پر وہ بلا جھجھک تھوک سکے۔ سکندرسے اس کی ملاقات دلچسپ تھی۔ ایتھنز کا حکمران جب گھوڑے سے اتر کر دھوپ میں لیٹے دیوجانس کے سامنے آکھڑا ہوا تو گفتگو کچھ یوں ہوئی۔ سکندر: میں سکندر اعظم ہوں۔ دیوجانس: میں ہوں دیوجانس سنکی۔سکندر: کیا آپ مجھ سے خوف زدہ نہیں؟ دیوجانس: تم اچھے ہو یا برے؟ سکندر:اچھا. دیوجانس:اچھوں سے کون ڈرتا ہے۔ مستقبل کا ارادہ؟ سکندر: پورے یونان کی فتح دیوجانس:پھر؟ سکندر:پھر ایشیائے کوچک کی۔ دیوجانس:پھر؟ سکندر: پھر پوری دنیا کی فتح اور حکمرانی۔ دیوجانس:اور پھر؟ سکندر:آرام اور چین کی زندگی۔ دیوجانس:پھر کیوں نہ تم آج ہی سے آرام اورچین کی زندگی شروع کردو۔ سکندر لاجواب ہو کر رخصت ہونے لگا تو کہا، دنیا کی کوئی نعمت کسی آسائش کی طلب ہو تو مجھے بتائیے۔ آپ کی خدمت میں حاضر کردی جائے گی۔ دیوجانس بولا :ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہوجاوتاکہ دھوپ مجھ تک پہنچ سکے۔پھر سرآغا وال کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔خواتین و حضرات دیوجانس کی کہی ہوئی باتیں قابل غور ہیں۔وہ کہتا ہے صرف ایک خیر، وہ ہے علم۔ صرف ایک شر، وہ ہے جہالت۔ نالائق شاگرد کے بجائے اس کے استاد کی پٹائی کیوں نہ کی جائے. کامیاب قوم کی بنیاد نوجوانوں کی تعلیم ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو ایتھنز کا نہیں دنیا کا شہری کہنے والے دیوجانس سے جب کسی نے پوچھا۔ امید کیا ہے؟تو اس نے کہا جاگے ہوئوں کا خواب۔وہ کہتا ہے سب چیزیں خدا کی ملکیت ۔ عقلمند خدا کے دوست۔ دوستوں کی ملکیت مشترک۔ گویا سب کچھ عقلمند لوگوں کا۔۔۔۔۔جاری ہے  wwwvalueversity.com2022-02-1404 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYARABIAN NIGHTS URDU/HINDI PODCAST, SHAHRAZADE, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, BARWA INSHA, EPISODE 12Shahrazade having devised a scheme to save herself and others, insists that her father give her in marriage to the king Sheheryar. See what happens next in this story  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts f...2022-02-1304 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYALLEGORY OF CAVE, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 11ALLEGORY OF CAVE, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST,    غار کے قیدی ، دادا اور دلدادہ ، انشے سیریل ، گیا رہواں انشا  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangaba...2022-02-1204 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYAN ARTIST, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 10AN ARTIST, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 10 This story is about an artist  فنکار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، دسواں انشا “I am enough of an artist to draw freely upon my imagination. Imagination is more important than knowledge. Knowledge is limited. Imagination encircles the world.” فنکار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، دسواں انشا گھنٹی بجی، دادا جی نے دروازہ کھولا۔ سرکاری وردی میں ملبوس، ایک ہاتھ میں تھیلا، دوسرے میں لفافے۔ میں خوف کے مارے کونے ہی میں دبکا رہا۔ دستخط کر کے ، لفافہ کھولا اور کاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے دادا جی بولے ۔سارے مضامین میں اے اور حساب میں اے اسٹار۔ بھئ ہمارے ممدو نے تو آئنسٹائن کوبھی مات دے دی۔ مارے خوشی کے  میں پھولا نہ سماتا تھا ۔کچھ دیر مبارکبادوں اور مٹھائی کھانے کھلانے میں گزری ۔پھر جب سب چائے کے مگ لیے صوفوں پر بیٹھے تو میں نے پوچھا۔ کیا واقعی آئنسٹائن اسکول میں ذہین طالب علم شمار نہ ہوتا تھا؟ انکل بولے۔اٹھارہ سو اناسی میں یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کو میونخ کے اسکول ماسٹروں نے درمیانے درجے کا طالب علم قرار دیا تھا لیکن ۔وہ بچپن ہی سے فزکس اور ریاضی میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ انیس سومیں تعلیم مکمل کرکے پیٹنٹ آفس میں ملازمت کے دوران وہ فارغ وقت میں تھیوریٹکل فزکس کا مطالعہ کرتا رہتا۔ اگلے پانچ سالوں میں اس نے حیران کن سائنسی مضامین لکھے۔ جن میں تھیوری آف ریلیٹیوٹی اور مشہور عالم فارمولا ای برابر ایم سی اسکوائر شامل ہیں۔ میں نے پوچھا۔  اس فارمولے کا فائدہ؟ دادا جی بولے۔یہ فارمولا ریاضی کی زبان میں اس سچ کا اظہار ہے کہ مادہ  حرارت اور بجلی کی طرح توانائی ہی کی ایک صورت ہے. پھر ایسے آلات بنے جو ایٹم جیسے چھوٹے ذرے کو توڑ کر بیش بہا توانائی پیدا کرسکتے ہیں۔ آج دنیا میں پیدا کی جانے والی تیرہ فی صد توانائی اسی فارمولے ہی کا فیضان ہے۔ بد قسمتی سے یہ ایٹم بم کی ایجاد کا سبب بھی ہے۔ یانی آپا نے برفی کا ٹکڑا پلیٹ میں ڈالا اور بولیں۔ آئنسٹائن انیس سو نو میں زیورک یونیورسٹی کا پروفیسر بنا  کچھ ہی برس بعد پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ انیس سو انیس میں اس کی تھیوری آف ریلیٹوٹی نے عالمی شہرت حاصل کر لی۔ سائنسی رسالوں میں اس کاکام سراہا گیا اور انیس سو اکیس میں اسے نوبل انعام ملا۔ ابتر سیاسی صورت حال کے سبب انیس سو بتیس میں اس نے نازی جرمنی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا۔ امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی انیس سو تینتیس کے بعد سے اس کا مستقل ٹھکانہ رہی۔  ۔انیس سو انتالیس میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔تو امریکی صدرروزولٹ کو اپنے خط میں اس نے ایٹم بم بنانے پر قائل کیا کہ کہیں نازی جرمنی یہ مہلک ہتھیارپہلے نہ حاصل کرلے۔ یاد رہے کہ یہ آئنسٹائن ہی تھا جس نے اقوام متحدہ برائے امن کی تجویز سب سے پہلے پیش کی تھی۔ وہ اپنی آخری سانسوں تک یونیفائڈ فیلڈ تھیوری پر کام کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہوسکا اور انیس سو پچپن میں چھیتر سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا ۔۔خود اپنے الفاظ  میں وہ ایک ایسا فنکار تھا جوتخلیقی تصور کی آزادی سے لطف اندوز ہوسکا۔۔۔۔۔جاری ہے www.valueversity.com2022-02-1104 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYMUFT MEHNAT KUCH, DADA AUR DILDADA URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, NAWA INSHA, EPISODE 09How nature supports us is an amazing reality. The work done by bees every year is worth hundreds of billions of Dollars. Enjoy the story and find out how  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts f...2022-02-1103 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYINQALAB ZINDABAD, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, ATWA INSHA, EPISODE 08This is the story of a young revolutionary Bhagat Singh who shaped the base of a grand national movement for the freedom of sub continent from the British empire. An unsung hero of India and Pakistan!  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. F...2022-02-1003 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSAADAY SAAZ, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, SAATWA INSHAY, EPISODE 07Amir Khusrow is an icon of music and culture in northern India and current day Pakistan. Invention of Sitar, Tabla and Qawali are few of his achievements this episode talks about This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality .  Listen, read, reflect and enjoy!  صدائے ساز، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ساتواں انشا  نیرنگ آباد سٹیشن پر انکل پٹیل اور یانی آپا منتظر تھے۔انکل دادا جی کے شاگرد، پھر ماتحت اور اب گہرے دوست ہیں اوراکلوتی یانی آپا ان کی مرحومہ بیگم کی واحد نشانی۔ہمارا قیام ان ہی کے گھر تھا۔ عمر میں مجھ سے سات سال بڑی یانی آپا میڈیکل کے چوتھے سال کی طالبہ ہیں، دو ایک روز ہی میں ہم گہرے دوست بن گئے۔ خوش لباس، خوش مزاج اور پڑھی لکھی۔ آنکھیں جیسے دمکتے ستارے اور ہنسی جیسے ہونٹوں سے جھڑتے ہار سنگھار کے پھول۔ یہ ہیں یانی آپا۔ ادب، شاعری، حالات حاضرہ اور موسیقی کی دلدادہ۔ داداجی گیسٹ روم اور میں اسٹڈی میں مقیم تھا۔ شیلف میں رکھی کتابوں سے شناسائی تو ہونا ہی تھی۔ میڈیکل، ادب اور شاعری کی ترتیب سے رکھی کتابیں۔ ایک کونے میں مسند پر ستار اور طبلے کی جوڑی رکھی تھی ۔ستار بجانا یانی آپا کا شوق نہیں جنون ہے۔ اس دن شام میں جب وہ مسند پہ بیٹھیں ستار کے تاروں کو دھیرے دھیرے چھیڑ رہی تھیں میں نے ایک کتاب کا صفحہ پلٹا۔اور انہیں یہ شعر پڑھ کر سنایا۔ ان کی نازک انگلیوں کو دیکھ کر اکثر عدم— ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے مجھے . پھر کتاب بند کی اور پوچھا۔ستار کب ایجاد ہوا یانی آپا؟ بولیں:تیرہویں صدی عیسوی میں دہلی میں علاء الدین خلجی کے دربار میں امیر خسرو نے اسے متعارف کروایا تھا۔ ہو سکتا ہے ایرانی سہ تار اس کا جد امجد ہو۔ اورطبلہ؟میں نے پوچھا۔ طبلے کی جوڑی قدیم ہندستانی ڈھول پکھاوج کی تہذیب یافتہ صورت ہے ممدو، امیر خسرو اس کے بھی موجد ہیں ۔طبلے اور ستار کی سنگت گویا ایک طرح کی گفتگو ہے۔ اور سر اور تال کی گفتگو تو جادو جگا سکتی ہے۔امیر خسرو کون تھے یانی آپا؟  کہنے لگیں: وہ بارہ سوتریپن ص ع  میں اترپردیش میں پیدا ہوئے اور بعد میں خسرو دہلوی کہلائے ۔وہ بیک وقت موسیقار، شاعراور ایک عالم تھے، نظام الدین اولیا سے تعلق خاص رکھنے والے۔ان کے روحانی اور پسندیدہ شاگرد۔ خسرو ہندوپاک کی تہذیب و ثقافت اور موسیقی کی علامت ہیں۔ عربی اور سنسکرت بول سکنے کے باوجود انہوں نے فارسی اور مقامی بولی ہندوی میں شاعری کی۔ گائکی میں خیال اور ترانہ کی طرز اور قوالی انہی کی ایجاد ہے ۔شاعر کی حیثیت سے غزل، مثنوی، قطعہ، رباعی اور دوبیت میں طبع آزمائی کی۔ ان کی بنائی ہوئی دھنیں دلوں کو تسخیر کرلیتی ہیں ۔دہلی کی سلطنت سے جڑے رہنے کے باعث انہیں شمالی ہندوستان اور موجودہ پاکستان میں زیادہ پذیرائی ملی۔ لیکن وہ بلا شبہ ایک آفاقی شخصیت تھے۔ان کی لکھی پہیلیاں، گانے اور ان کی ذات سے جڑے واقعات آج  بھی ہر دل عزیز ہیں۔وہ تیرہ سو پچیس ص ع  میں بہتر سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور نظام الدین اولیا کے پہلو میں دفن ہوئے۔۔۔۔جاری ہے  شارق علی   www.valueversity.com2022-02-1004 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYTitle heredescription here2022-02-1001 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYNOTEBOOK, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, CHAHTA INSHA, EPISODE 06Painting, sculpting, architecture, science, music, mathematics, engineering, geology, astronomy, botany, writing and history. Can a single man achieve mastery of thinking in all of these areas? Leonardo Da Vinci did. Have a glimpse of his note book in this story  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an e...2022-02-0903 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYLAMBI NEEND, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, PANCHWA SERIAL, EPISDODE 05Is life sustainable when body is frozen, blood is ice crystal, circulation and breathing almost stops for many months? You will find the answer in this story  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, p...2022-02-0903 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYROSHAN KHUTBA, DADA AUR DILDADAH, URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, CHOTHA INSHA, EPISODE 04This is the story about Immanuel Kant, a central figure of modern philosophy. These are the words inscribed on his tomb “starry heavens above and the moral law within”  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from...2022-02-0803 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYGOLDY LOCKS K BAASI, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHAY SERIAL, TISRA INSHA, EPISODE 03Is there life in Goldilock zone? It might be teeming with life. Who knows?  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation h...2022-02-0803 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYZINDAGI KA SAFAR, DADA AUR DILDADAH URDU/HINDI SHORT STORY SERIAL, INSHA SERIAL, DUSRA INSHA, EPISODE 02If you sometime wonder about the mystery of life, this story is for you.  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation h...2022-02-0704 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYDADA AUR DILDADAH, URDU/HINDI SHORTY STORY SERIAL SITARON SEY AGAY, INSHAY SERIAL, PEHLA INSHA EPISODE 01This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad...2022-02-0703 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYAN ARTIST, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 10AN ARTIST, GRANDPA & ME, URDU/HINDI POD CAST, EPISODE 10 This story is about an artist  فنکار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، دسواں انشا “I am enough of an artist to draw freely upon my imagination. Imagination is more important than knowledge. Knowledge is limited. Imagination encircles the world.” فنکار، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، دسواں انشا گھنٹی بجی، دادا جی نے دروازہ کھولا۔ سرکاری وردی میں ملبوس، ایک ہاتھ میں تھیلا، دوسرے میں لفافے۔ میں خوف کے مارے کونے ہی میں دبکا رہا۔ دستخط کر کے ، لفافہ کھولا اور کاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے دادا جی بولے ۔سارے مضامین میں اے اور حساب میں اے اسٹار۔ بھئ ہمارے ممدو نے تو آئنسٹائن کوبھی مات دے دی۔ مارے خوشی کے  میں پھولا نہ سماتا تھا ۔کچھ دیر مبارکبادوں اور مٹھائی کھانے کھلانے میں گزری ۔پھر جب سب چائے کے مگ لیے صوفوں پر بیٹھے تو میں نے پوچھا۔ کیا واقعی آئنسٹائن اسکول میں ذہین طالب علم شمار نہ ہوتا تھا؟ انکل بولے۔اٹھارہ سو اناسی میں یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے اس لڑکے کو میونخ کے اسکول ماسٹروں نے درمیانے درجے کا طالب علم قرار دیا تھا لیکن ۔وہ بچپن ہی سے فزکس اور ریاضی میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ انیس سومیں تعلیم مکمل کرکے پیٹنٹ آفس میں ملازمت کے دوران وہ فارغ وقت میں تھیوریٹکل فزکس کا مطالعہ کرتا رہتا۔ اگلے پانچ سالوں میں اس نے حیران کن سائنسی مضامین لکھے۔ جن میں تھیوری آف ریلیٹیوٹی اور مشہور عالم فارمولا ای برابر ایم سی اسکوائر شامل ہیں۔ میں نے پوچھا۔  اس فارمولے کا فائدہ؟ دادا جی بولے۔یہ فارمولا ریاضی کی زبان میں اس سچ کا اظہار ہے کہ مادہ  حرارت اور بجلی کی طرح توانائی ہی کی ایک صورت ہے. پھر ایسے آلات بنے جو ایٹم جیسے چھوٹے ذرے کو توڑ کر بیش بہا توانائی پیدا کرسکتے ہیں۔ آج دنیا میں پیدا کی جانے والی تیرہ فی صد توانائی اسی فارمولے ہی کا فیضان ہے۔ بد قسمتی سے یہ ایٹم بم کی ایجاد کا سبب بھی ہے۔ یانی آپا نے برفی کا ٹکڑا پلیٹ میں ڈالا اور بولیں۔ آئنسٹائن انیس سو نو میں زیورک یونیورسٹی کا پروفیسر بنا  کچھ ہی برس بعد پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ انیس سو انیس میں اس کی تھیوری آف ریلیٹوٹی نے عالمی شہرت حاصل کر لی۔ سائنسی رسالوں میں اس کاکام سراہا گیا اور انیس سو اکیس میں اسے نوبل انعام ملا۔ ابتر سیاسی صورت حال کے سبب انیس سو بتیس میں اس نے نازی جرمنی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا۔ امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی انیس سو تینتیس کے بعد سے اس کا مستقل ٹھکانہ رہی۔  ۔انیس سو انتالیس میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔تو امریکی صدرروزولٹ کو اپنے خط میں اس نے ایٹم بم بنانے پر قائل کیا کہ کہیں نازی جرمنی یہ مہلک ہتھیارپہلے نہ حاصل کرلے۔ یاد رہے کہ یہ آئنسٹائن ہی تھا جس نے اقوام متحدہ برائے امن کی تجویز سب سے پہلے پیش کی تھی۔ وہ اپنی آخری سانسوں تک یونیفائڈ فیلڈ تھیوری پر کام کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہوسکا اور انیس سو پچپن میں چھیتر سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا ۔۔خود اپنے الفاظ  میں وہ ایک ایسا فنکار تھا جوتخلیقی تصور کی آزادی سے لطف اندوز ہوسکا۔۔۔۔۔جاری ہے2021-09-0504 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYMuft Mehnat Kash, Dada Aur Dildada, Inshay Serial, Episode 9How nature supports us is an amazing reality. The work done by bees every year is worth hundreds of billions of Dollars. Enjoy the story and find out how  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts f...2021-09-0403 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYInqlab Zinda Abad, Dada Aur Dildada, Inshay Serial, Episode 8This is the story of a young revolutionary Bhagat Singh who shaped the base of a grand national movement for the freedom of sub continent from the British empire. An unsung hero of India and Pakistan!  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. F...2021-09-0303 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSadaaie Saaz, Dada Aur Dildada, Inshay Serial, Episode 7Amir Khusrow is an icon of music and culture in northern India and current day Pakistan. Invention of Sitar, Tabla and Qawali are few of his achievements this episode talks about This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality .  Listen, read, reflect and enjoy!  صدائے ساز، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ساتواں انشا  نیرنگ آباد سٹیشن پر انکل پٹیل اور یانی آپا منتظر تھے۔انکل دادا جی کے شاگرد، پھر ماتحت اور اب گہرے دوست ہیں اوراکلوتی یانی آپا ان کی مرحومہ بیگم کی واحد نشانی۔ہمارا قیام ان ہی کے گھر تھا۔ عمر میں مجھ سے سات سال بڑی یانی آپا میڈیکل کے چوتھے سال کی طالبہ ہیں، دو ایک روز ہی میں ہم گہرے دوست بن گئے۔ خوش لباس، خوش مزاج اور پڑھی لکھی۔ آنکھیں جیسے دمکتے ستارے اور ہنسی جیسے ہونٹوں سے جھڑتے ہار سنگھار کے پھول۔ یہ ہیں یانی آپا۔ ادب، شاعری، حالات حاضرہ اور موسیقی کی دلدادہ۔ داداجی گیسٹ روم اور میں اسٹڈی میں مقیم تھا۔ شیلف میں رکھی کتابوں سے شناسائی تو ہونا ہی تھی۔ میڈیکل، ادب اور شاعری کی ترتیب سے رکھی کتابیں۔ ایک کونے میں مسند پر ستار اور طبلے کی جوڑی رکھی تھی ۔ستار بجانا یانی آپا کا شوق نہیں جنون ہے۔ اس دن شام میں جب وہ مسند پہ بیٹھیں ستار کے تاروں کو دھیرے دھیرے چھیڑ رہی تھیں میں نے ایک کتاب کا صفحہ پلٹا۔اور انہیں یہ شعر پڑھ کر سنایا۔ ان کی نازک انگلیوں کو دیکھ کر اکثر عدم— ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے مجھے . پھر کتاب بند کی اور پوچھا۔ستار کب ایجاد ہوا یانی آپا؟ بولیں:تیرہویں صدی عیسوی میں دہلی میں علاء الدین خلجی کے دربار میں امیر خسرو نے اسے متعارف کروایا تھا۔ ہو سکتا ہے ایرانی سہ تار اس کا جد امجد ہو۔ اورطبلہ؟میں نے پوچھا۔ طبلے کی جوڑی قدیم ہندستانی ڈھول پکھاوج کی تہذیب یافتہ صورت ہے ممدو، امیر خسرو اس کے بھی موجد ہیں ۔طبلے اور ستار کی سنگت گویا ایک طرح کی گفتگو ہے۔ اور سر اور تال کی گفتگو تو جادو جگا سکتی ہے۔امیر خسرو کون تھے یانی آپا؟  کہنے لگیں: وہ بارہ سوتریپن ص ع  میں اترپردیش میں پیدا ہوئے اور بعد میں خسرو دہلوی کہلائے ۔وہ بیک وقت موسیقار، شاعراور ایک عالم تھے، نظام الدین اولیا سے تعلق خاص رکھنے والے۔ان کے روحانی اور پسندیدہ شاگرد۔ خسرو ہندوپاک کی تہذیب و ثقافت اور موسیقی کی علامت ہیں۔ عربی اور سنسکرت بول سکنے کے باوجود انہوں نے فارسی اور مقامی بولی ہندوی میں شاعری کی۔ گائکی میں خیال اور ترانہ کی طرز اور قوالی انہی کی ایجاد ہے ۔شاعر کی حیثیت سے غزل، مثنوی، قطعہ، رباعی اور دوبیت میں طبع آزمائی کی۔ ان کی بنائی ہوئی دھنیں دلوں کو تسخیر کرلیتی ہیں ۔دہلی کی سلطنت سے جڑے رہنے کے باعث انہیں شمالی ہندوستان اور موجودہ پاکستان میں زیادہ پذیرائی ملی۔ لیکن وہ بلا شبہ ایک آفاقی شخصیت تھے۔ان کی لکھی پہیلیاں، گانے اور ان کی ذات سے جڑے واقعات آج  بھی ہر دل عزیز ہیں۔وہ تیرہ سو پچیس ص ع  میں بہتر سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور نظام الدین اولیا کے پہلو میں دفن ہوئے۔۔۔۔جاری ہے  شارق علی2021-09-0204 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYNote Book, Dada Aur Dildada, Inshay Serial, Episode 6Painting, sculpting, architecture, science, music, mathematics, engineering, geology, astronomy, botany, writing and history. Can a single man achieve mastery of thinking in all of these areas? Leonardo Da Vinci did. Have a glimpse of his note book in this story This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies...2021-09-0103 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYLambi Neend, Dada Aur Dildada, Inshay Serial, Episode 5Is life sustainable when body is frozen, blood is ice crystal, circulation and breathing almost stops for many months? You will find the answer in this story  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, p...2021-08-3103 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYRoshan Katba, Dada Aur Dildada, Inshay Serial, Episode 4This is the story about Immanuel Kant, a central figure of modern philosophy. These are the words inscribed on his tomb “starry heavens above and the moral law within”  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from...2021-08-3003 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYGoldilock kay Baasi, Dada Aur Dildada, Inshay Serial, Episode 3Is there life in Goldilock zone? It might be teeming with life. Who knows?  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation h...2021-08-2903 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYZindagi ka Safar, Dada Aur Dildada, Inshay Serial, Episode 2If you sometime wonder about the mystery of life, this story is for you.  This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation h...2021-08-2804 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYSitaron se Aage, Dada Aur Dildada, Inshay Serial, Episode 1This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad...2021-08-2703 minVALUEVERSITYVALUEVERSITYBEYOND STARS - GRANDPA AND ME || EP 1 - PODCAST SERIAL BY Shariq AliLiving like a free bird in Phoolbun۔ If you are fifteen like me and disgusted with the life of a boarding school, you can surely imagine my excitement۔ Phoolbun is a scenic village where we spend our family holidays۔ Facing our small cottage, there are far-flung fields in this beautiful valley. Just behind the cottage is the hill covered with pine trees called Koh e Ramz. It seems as if Koh Ramz is a genie keeping its shadow on our cottage to guard us against all evils. I like everything here in Phoolbun except snails speed internet connection. No cha...2021-02-0204 minEmbrace The Full Audiobook That Keeps Book-Lovers Hooked.Embrace The Full Audiobook That Keeps Book-Lovers Hooked.Islam and Science for Starters: Geology, Water by Shariq Ali KhanPlease visithttps://thebookvoice.com/podcasts/2/audible/49742to listen full audiobooks. Title: Islam and Science for Starters: Geology, Water Author: Shariq Ali Khan Narrator: Shariq Ali Khan Format: mp3 Length: 9 mins Release date: 04-26-18 Ratings: 5 out of 5 stars, 1 rating Genres: Islam Publisher's Summary: Learn science with your children using the scientific signs of the Quran. This book is the fourth in the series and is about water.2018-04-2609 min